ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
نہیں ۔ عجیب نہیں کہ مرض پر ان کا اثر ہوجو بعض اوقات شورش سے پیدا ہوجاتا ہے ۔ استفسار پر فرمایا کہ عقلی محبت میں کمی بیشی نہیں ہوتی کیونکہ حاصل اس کا اعتقاد ہے ۔ مزید استفسار پر فرمایا کہ اسی طرح ایمان میں بھی کمی بیشی نہیں ہوتی کیونکہ ایمان تو تصدیق واعتقاد عقلی کو کہتے ہیں ۔ اور یہی معنٰی ہیں بعض اکابر کے قول کے کہ جیسا حضرت جبریل علیہ السلام کا ایمان ہے ویسا ہی ہمارا ۔ ہاں ضعف وقوت کا فرق ہے ۔ کمی بیشی اور چیز ہے ضعف وقوت اور چیز ہے ۔ ان میں عام لوگ فرق نہیں کرتے ۔ درسیات پڑھنے کی ضرورت ہے درسی کتابوں سے اسی طریق کے مسائل سمجھنے میں۔ بہت اعانت ہوتی ہے ۔ اور ایسے دقیق فرق سمجھ میں آنے لگتے ہیں ۔ یہ تو حقیقت تھی دونوں کی آگے بحث ہے ترجیح کی ۔ سو حضرت مولانا اسمعیل شہید رحمتہ اللہ علیہ حب عشقی پر حب عقلی کو ترجیح دیتے ہیں اور حضرت مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کا مذاق اس کے برعکس ہے اور ہمارے حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا مذاق بھی حضرت مولانا رومی رحمتہ کے مطابق ہے خود حضرت پر حب عشقی کا بہت غلبہ تھا اور حضرت مولانا گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ نے خوب فیصلہ فرمایا جو بے نظیر ہے ۔ فرماتے تھے کہ زندگی میں تو حب عقلی کو ترجیح ہے اور عین موت کے وقت اگر اللہ تعالٰی نصیب فرما دیں تو حب عشقی کے غلبہ کے وقت عمل میں کمی ہونے کا اندیشہ ہے اور عین موت کے وقت اس اندیشہ کا کوئی موقع نہیں کیونکہ وہ وقت ہی عمل کا نہیں ۔ ایسے وقت حب عشقی کا غلبہ ظاہر ہے کہ اچھا ہے یہ مولانا کا فیصلہ ہے اور اس اختلاف سے تعجب نہ کیا جاوے اس فن میں ہر بزرگ امام ہے مگر ساتھ ہی یہ بات بھی قابل تنبیہ کے ہے کہ ان تحقیقات میں ماہر ہونے سے خدا کا قرب نہیں بڑھتا اور اگر دو رکعت پڑھ لے یا ایک بار بھی سبحان اللہ کہہ لے تو اس سے قرب بڑھتا ہے اللہ تعالٰی کے یہاں ان تحقیقات کو کوئی نہیں پوچھتا البتہ لوگ معتقد ہوجاتے ہیں ۔ عرض کیا گیا کہ ان تحقیقات سے عرفان تو حاصل ہوتا ہے جس سے وساوس دفع ہوجاتے ہیں ۔ فرمایا کہ خود دفع وساوس ہی مقصود نہیں ۔ اگر ساری عمر بھی وساوس میں گھرا ہوا رہے اور ہر وقت گھرا ہوا رہے پھر بھی مطلق ضرر نہیں ۔ اور اس سے رائی برابر بھی قرب الہی میں کمی نہیں ہوتی اگر کسی مقرب شاہی کو مکھیاں لپٹی ہوئی ہوں تو خود بادشاہ کے ساتھ جو اس کو قرب حاصل ہے اس میں کیا کمی ہوئی ۔ وہ مکھیوں