ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
نے اپنے دست مبارک سے باندھا تھا مگر قبل روانگی حضور مرض وفات میں علیل ہوگئے اور وہ لشکر بھی اس پریشانی میں نہ روانہ ہوسکا ۔ مانعین زکوۃ کے خلاف جہاد کے جواز ہی میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو کلام تھا لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی یہ قطعی رائے تھی کہ ان کے خلاف جہاد کرنا واجب ہے کیونکہ وہ تاویل کے ساتھ ایک رکن اسلام کے منکر تھے (کیونکہ ضروریات دین میں تاویل دافع کفر نہیں ) چنانچہ حضرت نے نہایت شدومد کے ساتھ فرمایا کہ اگرکوئی مجھ حضور سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک رسی بھی زکوۃ میں نکالتا تھا اور اب دینے سے انکار کرتا ہے تو میں اس کے خلاف بھی جہاد کروں گا چاہے کوئی میرا ساتھ دے یا نہ دے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اجبار فی الجاہلیۃ خوار فی الاسلام تم جاہلیت میں ایسے مضبوط تھے اسلام میں آکر ایسے بودے ہوگئے یہ تقریر سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی اس کے متعلق بالکل شرح صدر ہوگیا ۔ نیز حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی یہ بھی رائے تھی کہ جیش اسامہ کو ابھی نہ روانہ کیا جاے کیونکہ اندرون ملک میں جو گڑبرا ہے پہلے اس کو رفع کیا جائے لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس ٹھنڈے کو حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے باندھا ہے میں اس کو کسی حال نہیں کھول سکتا میں اس لشکر کو ضرور روانہ کروں گا ۔ چاہے مدینہ کے اندر کتنا ہی فتنہ وفساد کیوں نہ برپا ہوجائے حتی کہ میں اس کی بھی پرواہ نہیں کروں گا کہ فتنہ و فساد کی وجہ سے خدانخواستہ مقدس بیبیوں کی ٹانگیں پکڑ کر کتے مدینے کی گلیوں میں گھسٹیتے پھریں ۔ چنانچہ یہ ہی کیا اور تینوں کام ایک ساتھ شروع کردیئے ۔ ما بعین زکوۃ کۓ کلاف جہاد کی کاروائی بھی شروع کردی ۔ مرتدین کے مقابلہ میں بھی لشکر کشی کردی اور جیش اسامہ کو بھی روانہ کردیا ۔ اس سے تمام کفار پر رعب طاری ہوگیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے پاس اندرونی کوئی بڑی زبردست قوت ہے کہ تین تین جگہ لڑائی چھیڑرکھی ہے ۔ دیکھئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شریعت ہوگئے جس کا پہلے سے کسی کو علم نہ تھا مسلمانوں کی دھاک تمام بلاد ومصارمیں بیٹھ گئی ۔ غرض اکثر شریعت مقدسہ کے مصالح اس پر عمل کرنے کے بعد معلوم ہوتے ہیں ۔