ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
پوچھے کہ یہ مختلف ترتیب کے عنوان کیوں اختیار کئے تو کیا اس کی وجہ بیان کرسکتا ہے کہ ایک دن تو بیٹے پہلے کہا اور ایک دن بیٹا بعد کو کہا ۔ اب اس میں کاوش کرنا کہ تقدیم کیون کی اور تاخیر کیوں کی یہ محض تکلف ہے ۔ میری تو ربط آیات میں بھی یہی رائے ہے اتنا تو جمالا معلوم ہے کہ باہم آیات میں ربط ضرور ہے لیکن اس کی تعیین کوئی نہیں کرسکتا اور ربط کا ہونا بھی دلیل شرعی سے معلوم ہو اور نہ اس کا بھی قائل ہونا ضروری نہ تھا میں تو اس کا بھی قائل نہ ہوتا کیونکہ اس کا احکام ونصائح میں باہم ربط ہونا لازم نہیں مگر چونکہ دلیل شرعی سے ربط کا ہونا ثابت ہے اس لئے فی الجملہ ربط کا قائل ہونا ضروری ہے اور وہ دلیل یہ ہے کہ نزول کی ترتیب اور ہے اور تلاوت کی ترتیب اورہے کہ کیونکہ ہر آیت کے نزول کے بعد بذریعہ وحی حکم ہوتا ہے کہ فلاں آیت کو فلاں صورت میں فلاں مقام پر رکھ دیجئے ۔ اس سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام سے کوئی مناسبت ضرور ہے ۔ باقی مناسبت کی وجہ کیا ہے یہ علی سبیل القطع نہیں معلوم کیونکہ وحی کے ذریعے سے یہ نہیں بتایا گیا ۔ اب متاخرین نے تعین کے ساتھ یہ بھی بیان کیا ہے کہ کیا مناسبت ہے سو یہ اگر جزما ہے تو غلو ہے ۔ ہاں اگر بہ طور نکتے کے کوئی مناسبت کی جائے لیکن علی سبیل الجزم نہیں تو خیر مضائقہ نہیں ۔ لیکن اس کو علم مقصود سمجھنا غلطی ہے ۔ یہی میں نے کیا چنانچہ میں نے خود ربط آیات کی تقریریں اپنی تصنیف سبق الغایات فی نسق الایات میں کی ہیں بلکہ محض نکتے ہیں اور ظنی ہیں جزم کے ساتھ یہ ہر گز نہیں کہا جاسکتا کہ وہ واقعی ہیں اس کا قطعی علم تو حق تعالٰی ہی کو ہے کیونکہ وحی سے ہم کو یہ نہیں بتلایا گیا کہ باہم آیات میں کیا ربط ہے لہذا جو کچھ لکھا گیا ہے وہ محض رائے ہے دلیل قطعی نہیں ۔ اور اگر ترتیب نزول و تلاوت مختلف نہ ہوتی تو میں اجمالی ربط کا بھی قائل نہ ہوتا ۔ لیکن چونکہ نزول کی ترتیب ہے اور تلاوت کی اور ترتیب اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مناسبت تو ضرور ہے اور مناسبت کی وجہ ہی سے تلاوت کی خاص ترتیب رکھی گئی ہے باقی وجہ مناسب کی کیا ہے اسکا علم ہم کو نہیں دیا گیا یہی وجہ یے کہ مناسبت کی تقریریں مختلف ہیں ایک نے کچھ اور تقریر کی ہے دوسرے نے کچھ اور تو کیا دونوں تقریریں صحیح ہوسکتی ہیں ۔ بات یہ ہے کہ یہ سب ظنہیات ہیں ۔ اس میں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ لوگوں نے زوائد کو مقاصد بنالیا ہے میں نے جو مضمون