ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
سمجھنا دشوار ہے - سلطان جی نے جواب دیا کہ میں تو کچھ نہیں سمجھا - صا حبزادہ نے کہا کہ حضرت شیخ کے اس فرمانے کہ وجہ یہ تھی کہ حضرت شیخ کو اپ ک یہ جملہ ناگواار گزرا - کیونکہ اس جملہ میں اس کا ایہام ہے کہ گویا آپ کے نزدیک حضرت شیخ کی استعداد علمی اتنی ناقص ہے کہ بغیر صحیح نسخے کے وہ فتوحات یا نصوص کو پورے طور پر نہیں سمجھ سکتے اس لئے صحیح نسخہ کا پتہ بتلایا یہاں تک کہ یہ حکایت بیان فرمانے کے بعد حضرت والا نے ارشاد فرمایا کہ واقعی ہے بھی یہی بات جو ان صاحبزادے نے فرمائی چنانچہ اس کو ایک مثال سے سمجھنا چاہیے وہ یہ کہ مثلا ایک جدید حافظ ہے اس نے کسی کے سامنے ایک بار کہا کہ آج کل قرآن مجید صحیح کم چھپتا ہے اور اس کو سن کر کوئی شخص کہے کہ فلاں جگہ ایک نسخہ قرآن شریف کا بہت صحیح ہے تو اس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اس شخص کے نزدیک اس حافظ کو قرآن پختہ یاد نہیں اس لئے صحیح نسخہ کا پتہ بتلادیا گیا اور یہ در حقیقت اس حافظ کے حفظ کی تنقیص ہے - بس اسی طرح اس جملہ کو سمجھنا چاہے جو حضرت سلطان جی کو زبان سے نکلا چنانچہ ان صاحبزادے نے جب حضرت سلطان جی کو متنبہ کیا تو سلطان جی کے ہوش اڑگے اور فورا حضرت شیخ فرید کی خدمت میں حاضر ہو کر دست بستہ معافی کے خواستگار ہوئے اور بہت روئے اور بہت گڑ گڑائے مگر حضرت فرید کو ان کا یہ فعل اس درجہ برا معلوم ہوا تھا کہ اس قدر معذرت کے باوجود راضی نہیں ہوئے جب سلطان جی مجبور ہوگئے اور کوئی صورت خطا کی معافی کی سمجھ نہیں آئی تو آخر کار ان کے صاحبزادے سے کہا کہ آپ میری سفارش کریں چونکہ وہ صاحبزادے تھے اور اولاد کو اپنے ماں باپ پر ایک قسم کا ناز ہوتا ہے اس لئے یہ صاحبزادے حضرت فرید کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلطان جی کو معافی دینے کے لئے زور دیا چنانچہ صاحبزادے کے کہنے سے حضرت فرید نے سلطان جی کی خطا معاف فرمائی اور سلطان جی سے خوش ہوگئے پھر اپنی خوشنودی کو ظاہر کرنے کے لئے ایک جائے نماز سلطان جی کو عطا فرمائی مگر باوجودیکہ حضرت فرید نے خطا معاف فرمدی اور پھر اتنی عنایت کا بھی اظہار کیا مگر ذرا سلطان جی کی حالت دیکھئے کہ وہ کس درجہ اپنے اس فعل پر نادم ہوئے چنانچہ حضرت سلطان جی فرماتے ہیں کہ اس معافی اور خوشنودی کے بعد بھی میری یہ حالت رہی کہ میری نظر میں اپنا یہ فعل ہمیشہ کاتٹا سا کھٹکتا رہا - اور افسوس رہا کہ میں نے ایسی بات کیوں کہی تھی - اس حکایت کے رشاد فرمانے کے بعد حضرت حکیم الامۃ دام ظلہم العالی نے ارشاد فرمایا کہ اپنے شیخ کے ساتھ طالب کو اتنا اعتقاد چاہیے جیسا سلطان جی کو حضرت فرید