ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
نہیں دی اور دوسرا واقعہ جہاں ملامت خلق کی پروا نہیں کی گئی وہ واقعہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے نکاح کا ہے جو خود کلام اللہ میں مذکور ہے اس واقعہ کی شرح یہ ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہما کا نکاح اول حضرت زیدبن حارثہ سے ہوا تھا یہ زیدبن حارثہ ( جیسا کہ بیان القرآن میں مذکور بھی ہوا ہے عربی الاصل نبی کلب میں سے ہیں پر اپنے نینیال میں گئے ہوئے تھے کہ وہاں لوٹ مار ہوئی اور یہ گرفتار ہوکر سوق عکاظہ میں بیچے گئے اور حضرت خدیجہ نے اپنے برادر زادہ حکم بن حزام کو ایک ہوشیار غلام خرید نے کے لئے کہہ رکھا تھا انہون نے ان کو خریدا پھر جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما سے حضور نے نکاح کیا تو آپ نے ان سے زیدبن حارثہ کو بطور ہبہ کے لے لیا یہ سفر شام میں اپنی قوم میں سے گزرے تو ان کے چچا اور رباب نے ان کو پہچان لیا اور سب حال سن کر مکہ میں حضور کی خدتم میں حاضر ہو کر ان کو مانگا آپ نے حضرت زید ہی کو اختیار دے دیا - انہوں نے آپ ہی کے پاس رہنا پسند کیا ان کے عزیزوں نے کہا بھی کہ تم غلامی کوپسند کرتے ہو انہوں نے کہا چاہے کچھ ہو میں حضور ﷺ کو نہ چھوڑوں گا آپ ﷺ نے خوش ہو کر ان کو آزاد کردیا اور اپنا متنبی بنالیا اس سے وہ لوگ بھی خوش ہوگئے - ااس کے بعد حضور ﷺ نے چاہا کہ حضرت زید کا نکاح حضرت زینب سے جو حضور ﷺ کی پھوپھی زاد بہن تھیں کردیا جاوے چونکہ حضرت زید عام میں غلام مشہور ہوچکے تھے حضرت زینب نے اور ان کے بھائی نے اس نکاح کی منظوری سے عذر کیا مگر اس کے بعد اس کے متعلق آیت نازل ہوئی محض خدا و رسول ﷺ کی خوشنودی کو ضروری سمجھ کر حضرت زینب نے یہ نکاح منظور کرلیا مگر اتفاق سے حطضرت زید بن حارثہ اور حضرت زینب کے مزاجوں میں توافق نہ ہوا حضرت زید نے طلاق دینا چاہا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیا آپ نے فہمائش کی کہ طلاق مت دو مگر جب کسی طرح موافقت نہ ہوئی اور پھر عزم طلاق ظاہر کیا اس وقت حضور کو بوحی الہٰی معلوم ہوا کہ زید ضروری طلاق دیں گے اور زینب کا نکاح آپ سے ہوگا اور اس وقت مصلحت بھی یہی تھی کیونکہ اول تو یہ نکاح خلاف مرضی ہونے کی وسجہ سے موجب رنج طبعی ہوا تھا پھر اس پر طلاق دینا اور زیادہ موجب کلفت اور دل شکنی تھا - اس دل شکنی کا تدارک جس سے حضرت زینب کی اشک سوئی ہوسکتی تھی اس سے بہتر اور کوئی نہ تھا کہ حضور ﷺ ان سے نکاح کر کے ان کی دلجوئی اور قدر افزائی فرمادیں - مگر ساتھ ہی اس کے حضور ﷺ کو یہ بھی خیال تھا کہ اگر