جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
تشریح : یعنی بڑے عقل مند غلام کو چرانا شرعاً سرقہ نہیں بلکہ خداع (دھوکہ) اور غصب ہے اور یہ تعلیل خود حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہسے مروی ہے۔ لہٰذا جب شرعی سرقہ نہیں پایا گیا تو حد سرقہ بھی لاگو نہیں ہو گی۔ البتہ چھوٹے غلام کو جو اپنا اظہار نہ کر سکتا ہو اور اپنے آپ سے واقف نہ ہو اس کو چرانے میں سرقہ ہو گا۔ کیونکہ اس صورت میں سرقہ شرعی متحقق ہو گا۔ اور اسی صورت پر مصنف ابن ابی شیبہ کی دوسری حدیث محمول ہے جس میں آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہکے پاس ایسا چور لایا گیا جس نے غلام چرایا تھا تو آپ نے اس چور کا ہاتھ کاٹا تھا۔حدیث نمبر16 : قاسم سے مروی ہے کہ ایک شخص نے بیت المال سے چوری کی تو اس بارے میں سعد بن ابی وقاص نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہکو لکھا کہ ایک شخص نے بیت المال سے چوری کی ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہنے (جواب میں) فرمایا کہ اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے کیونکہ ہر شخص کا بیت المال میں حق ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہحدیث نمبر17 : شعبی سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہفرمایا کرتے تھے کہ بیت المال سے چوری کرنے والے پر قطع ید نہیں۔ تلخیص الحبیر ج2 ص357