جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالاُنثَی بِالاُنثَی فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْئٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَاَدَائٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ذَلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ فَمَنِ اعْتَدَی بَعْدَ ذَلِکَ فَلَہُ عَذَابٌ اَلِیْمٌ وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیَاۃٌیَّا اُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ سورۃ البقرۃ، 179،178 ایمان والو! تمہارے اوپر مقتول کے بارے میں خون کا بدلہ خون فرض کیا جاتا ہے اس طرح کہ آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، اگر قاتل کو اس کے مقتول بھائی کے قصاص میں کچھ معاف کر دیا جائے تو دستور کے مطابق پیروی کرو اور بھلائی کے ساتھ ادائیگی کرو یہ تمہارے رب کی جانب سے آسانی اور رحمت ہے اور اس کے بعد جو زیادتی کرے اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اور اے عقل مندو! تمہارے لیے حکم قصاص ہی میں زندگی ہے کہ تاکہ تم خونزیری سے بچو۔ اسلام نے یہ حکم دے کر خون خرابہ کو ختم کر دیا۔ سطور ذیل میں سنت شریفہ کی روشنی میں اس بارے میں عدل و انصاف کے چند نمونے پیش کیے جاتے ہیں۔غلام کو قتل کرنا امام اوزاعی نے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نے اپنے غلام کو عمداً قتل کر دیا۔ جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلمنے اس کے سو کوڑے لگوا دئے اور ایک سال کے لیے اس کو شہر بدر کر دیا اور اس کو امر فرمایا کہ ایک غلام آزاد کرے اور اس سے قصاص نہیں لیا۔ لیکن امام احمد نے روایت کیا ہے۔ من قتل عبدہ قتلناہ