جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
کا امکان ہو۔ التقوٰی فی اللیالی علی القیام فی الایام علی الصیام والقتال لاعداء الاسلام او التداوی لدفع الالام۔ اگر لہو و لعب مقصود ہو تو بالاتفاق حرام ہے۔ دومیہ کہ اتنی مقدار نہ ہو کہ اس سے نشہ پیدا ہو۔ مالم یسکر… اگر غالب گمان ہو کہ اس کے پینے سے نشہ آجائے گا تو پھر اس کا پینا درست نہیں۔ لیکن امام محمد کو اس مسئلہ میں شیخین سے اختلاف ہے ان کے نزدیک ان مشروبات میں اگر شدت کی کیفیت پیدا ہو جائے تو یہ بھی حرام ہو جاتے ہیں چاہے مقدار کم ہو یا زیادہ، بہرحال وہ حرام ہوں گی۔ ان کے پینے پر شراب کی سزا نافذ کی جائے گی۔ اگر پی کر کوئی بحالت نشہ طلاق دے دے تو طلاق واقع ہو جائے گی نیز وہ نجس شمار ہو گا یہی رائے ائمہ ثلاثہ کی ہے اور اسی پر متاخرین احناف نے فتویٰ دیا ہے۔ دیکھیے رد المحتار ج5 ص292، 293، ماخوذ قاموس الفقہ ص339 تا 343 ہم نے یہاں تک حنفی مذہب کی وضاحت کر دی ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ حنفی مذہب میں شراب حرام ہے۔ اب ہدایہ کی عبارات کی وضاحت کی جاتی ہے۔ہدایہ کی پہلی عبارت کی وضاحت علامہ ابو الحسن مرغینانی حنفی صاحب ہدایہ کو اس مقام پر امام محمد کی جامع صغیر کی عبارت سے وہم ہو گیا ہے۔ طالب الرحمن نے ہدایہ کی پوری عبارت نقل نہیں کی اگر پوری عبارت نقل کرتے تو معلوم ہو جاتا کہ اصل بات جامع صغیر کی ہے۔ ہدایہ کے بعد اکثر مصنفین نے صاحب ہدایہ پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی اپنی تصانیف میں یہ مسئلہ