جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
ہے۔ اوپر ذکر آ چکا ہے کہ فقہائے کرام قصاص کا ذکر حدود کے ساتھ نہیں کرتے بلکہ حدود سے علیحدہ اس لیے کرتے ہیں کہ اس میں بندوں کا حق غالب ہوتا ہے یعنی مقتول کے ورثاءاسے معاف بھی کر سکتے ہیں مگر حدود میں جو جرائم آتے ہیں ان کا شمار حقوق اﷲ میں ہوتا ہے۔ اس میں اﷲ کا حق غالب ہوتا ہے ان کو کوئی آدمی معاف نہیں کر سکتا۔ گو کہ ایک حیثیت سے قصاص بھی حقوق اﷲ میں شامل ہے اس لیے کہ اﷲ نے جان کو محترم قرار کر دیا ہے اور قاتل اس احترام کو پامال کرتا ہے۔ جو اﷲ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے، حدود میں جو جرائم آتے ہیں ان میں بھی کسی نہ کسی حیثیت سے بندے کی حق تلفی شامل ہوتی ہے۔ چوری، ڈاکہ زنی ہی نہیں بلکہ زنا، قذف بھی کسی نہ کسی حیثیت سے بندے کی حق تلفی ہے۔ مگر اس میں غالب اﷲ کا حق ہے اس لیے اس سزا کو کوئی معاف نہیں کر سکتا۔قصاص کی شرعی تعریف فقہاء نے اس کی اصطلاحی تعریفیہ کی ہے۔ انہ عقوبۃ مقدرۃ تجب حقًا للفرد التعزیر فی الشریعۃ الاسلامیۃ ص25 یہ ایک متعین سزا ہے جو بندے کے حق سے متعلق ہے۔ اوپر ذکر آ چکا ہے کہ اس حیثیت سے قصاص بھی حدود میں شامل ہے کہ اس کی سزا بھی مقرر اور متعین ہے مگر اس حیثیت سے یہ عام جرائم سے الگ ہے کہ یہخالص فرد کا حق ہے جسے وہ معاف کر سکتا ہے گویا قصاص اس سزا کو کہتے ہیں جو کسی قتل کے بدلہ میں قاتل کو دی جائے۔