جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
بزرگوں کی تحریر کو بھی دیکھ لیں کہ وہ کیا کہتے ہیں:حافظ عبداﷲ روپڑی غیر مقلد کا فتویٰ فتاویٰ اہل حدیث میں ہے: یہ بھییاد رہے کہ ایمان کی کمی بیشی کی بحث کا تعلق یوم آخرت اور خدائے تعالیٰ سے ہے کہ قیامت کے دن خداوند تعالیٰ ایمان میں کمی بیشی کے لحاظ سے فرق مراتب کریں گے ورنہ دنیا میں کسی کے ایمان میں فرق مراتب نہیں ہو سکتا ۔جو شخص بھی ایمانیات کا اقرار کرے گا اس کو ہم مومن ہی کہیں گے اور اس پر مومنوں کے احکام جاری ہوں گے تاوقتیکہ وہ کسی صریح عمل کفر کا ارتکاب نہ کرے مثلاً کسی بت کو سجدہ کرے۔ فتاویٰ اہل حدیث ج9، ص87، کتاب الایماندوسرا جواب تفصیلی ایمان کی کمی بیشی تفسیر ایمان کی فرع ہے۔ امام صاحب فقہ اکبر میں تحریر فرماتے ہیں: والایمان ہو الاقرار و التصدیق یعنی ایمان اقرار زبان اور تصدیق قلب کا نام ہے۔ آیات قرآنی پر نظر ڈالنے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عمل نفس ایمان کا جزء نہیں۔پہلی آیت : وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اُولٰٓئِکَاَصْحَابُالْجَنَّۃِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ البقرہ:82