جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
ایمان میں سچا تھایا جھوٹا؟ ان دلائل سے واضح ہو گیا کہ ایمان کا محل دل ہے۔ پھر قرآن کریم میں جگہ جگہ امنوا وعملوا الصلحت کہا گیا ہے۔ ایمان اور عمل کے درمیان حرف عطف لایا گیا ہے ۔ اور عطف مغایرۃ کے لیے آتا ہے جس سے واضح ہو گیا کہ ایمان اور چیز ہے اور اعمال اس سے الگ ہیں۔ جب ایمان کا محل دل ہے اور دل میں تصدیق ہوتی ہے عمل اور اقرار نہیں ہوتا تو ان آیات و احادیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ایمان اصل میں تصدیق قلبی ہی کا نام ہے۔ اور ایمان اس تصدیق کا نام ہے جو حدیقین و اذعان پر پہنچی ہو اور اس میں کمی و زیادتی نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے امام شافعی فرماتے ہیں کہ اگر ایمان سے تصدیق مراد لی جائے تو اس میں کمی بیشی کے درجات نکلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔طالب الرحمن کا جھوٹا دعویٰ طالب الرحمن نے جو یہ کہا ہے کہ قرآن کا فیصلہ ہے کہ آدمی کے ایمان میں کمی و زیادتی ہوتی ہے تو یہ بالکل جھوٹا دعویٰ ہے۔ قرآن کریم میں صرف ایمان کی زیادتی کا ذکر ہے کمی کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے اسی وجہ سے امام مالک قرآن کریم کے ظاہر کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایمان میں صرف زیادتی کے قائل ہیں اور امام بخاری نے بھی زیادتی پر وہ آیات پیش کی ہیں جن میں زیادتی کا ذکر ہے اور کمی کے بارہ میں کوئی آیت پیش نہیں کی۔ حسن و زینت کے اضافہ اور ایمان کے کمال کے قائل تو احناف بھی ہیں اس لیے ان کے نزدیک ایمان کے ساتھ جس کے عمل کا ذرہ برابر بھی وزن ہو گا اس کو جہنم سے نکالا جائے گا۔ اور اسی نظریہ کی تائید احادیث کرتی ہیں جیسا کہ بخاری کی روایت ہے کہ جب حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کی شفاعت سے اس کو بھی جہنم سے نکال دیا جائے گا