جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
دے اور اس کی موت ہو جائے یا کوئی اور صورت ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ قاتل اپنے ارادے سے جس طریقہ اور جس چیز سے مقتول پر وار کرے گا وہ قتل عمد میں شمار ہو گا۔قتل عمد کا حکم قتل عمد میں قاتل سے قصاص لیا جائے گا جیسا کہ قرآن پاک میں ہے۔ یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی تمہارے اوپر قتل کے جرم میں قصاص فرض کیا گیا ہے، آزاد آزاد کے بدلہ میں قتل کیا جائے گا، غلام غلام کے بدلہ اور عورت عورت کے بدلہ۔ البتہ اگر مقتول کے اولیاء اور ورثاء قصاص معاف کر دیں تو اس سے دیت لی جائے گی بشرطیکہ قاتل بھی دیت دینے پر راضی ہو جائے ۔معاف کرنے اور دیت کے واجب ہونے اور نہ ہونے کی کئی صورتیں ہیں۔ قاتل کی دوسری سزا یہ ہے کہ اگر مقتول اس کا مورث ہے تو وہ اس کی میراث سے محروم رہے گا اور تیسری سزا آخرت کے اعتبار سے ہے یعنی آخرت میں اس کو عذاب ہو گا۔ قارئین کرام!ہم نے فقہ حنفی کے دس حوالہ جات پیش کر دیے جن میں قصاص کا حکم صاف موجود ہے۔ ان دس کے علاوہ اور بے شمار حوالہ جات پیش کیے جا سکتے ہیں۔ طالب الرحمن صاحب نے جو لکھا ہے کہ حنفی قصاص کو نہیں مانتے وہ بالکل غلط ہے۔ غلط بیانی اور دھوکہ دہی کی جو سزا قرآن و سنت میں موجود ہے اس سے ڈرنا چاہیے۔