جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
اس حدیث کو امام طحاوی اور ابوداودالطیالسی نے روایت کیا ہے۔ بذل ج5 ص173 اور بعض علماء نے فرمایا ہے کہ یہ قتل اس طرح پر یہودی کے نقض عہد کی بنا پر تھا لیکن علامہ ابن قیم نے فرمایا ہے کہ نقض عہد کی سزا بھی اس طرح نہیں دی جا سکتی اس کی سزا بھی تلوار ہی کے ذریعے دی جائے گی۔ زاد المعاد حنفی حضرات نے فرمایا ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ پہلے یہ حکم تھا بعد میں منسوخ ہو گیا اور قتل کی سزا صرف تلوار ہی کے ذریعہ مقرر ہو گئی۔ ہمارے خیال میں یہ قول زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ مثلہ کا حکم 6ھ کے بعد منسوخ قرار دے دیا گیا تھا کیونکہ6ھ میں اہل عرینہ کا واقعہ پیش آیا تھا اور اس باندی کے قتل کا واقعہ غزوہ احزاب کے قرب و جوار اور قتل بنی قریظہ سے قبل پیش آیاکیونکہ اس کے بعد تو یہودی مدینہ میں نہیں رہے بلکہ ان کو باہر نکال دیاگیا تھا۔حاملہ عورت کا قتل صحیحین میں ہے کہ قبیلہ ہذیل کی دو عورتوں میں لڑائی ہوئی ایک عورت نے دوسری کے پتھر مارا۔ وہ حاملہ تھی پتھر کی چوٹ سے ہلاک ہو گئی اور اس کے پیٹ سے بچہ نکلا وہ بھی مر گیا۔ جب حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میںیہ معاملہ پیش ہوا تو آپ نے بچہ کے بدلہ ایک غلام لڑکا یا لڑکی دلائی اور مقتول عورت کے بدلہ قاتلہ کے وارثوں سے دیت دلائی۔ اور نسائی میں ہے کہ آپ نے اس کو قتل کرا دیا۔ اور صحیحیہہے کہ قتل نہیں کرایا تھا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شبہ عمد میں قصاص نہیں ہے۔ رواہ ابو داود، زادا المعاد