جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
قتل کی پانچ صورتیں ہوتی ہیں: 1۔ قتل عمد2۔ شبہ عمد 3۔ قتل خطا 4۔ شبہ قتل خطا 5۔ قتل کا سبب بننا۔1… قتل عَمد قتل عمد یعنی کوئی شخص قصد و ارادہ کے ساتھ کسی کو قتل کر دے۔ اس کی تعریف صاحب ہدایہ نے یہ کی ہے: فالعمد ما تعمد ضربہ بسلاح او ما اجری مجری السلاح ہدایہ ج4 ص543 قتل عمد یہ ہے کہ جس نے کسی کو لوہے کے اسلحہ سے یا اس کے مشابہ کسی چیز سے قتل کرنے کی کوشش کی اور قتل کر دیا۔ علامہ کاسانی نے لوہے کے اسلحہ کی مثال میں تلوار، چھری، نیزہ، ستالی وغیرہ اور اسلحہ کے مشابہ یا اسی طرح زخمی کرنے والی چیزوں کی مثال میں آگ، شیشہ، نکل، بانس کی چھال یا تانبہ کی کسی چیز سے قتل کرنے کا ذکر کیا ہے۔ اس زمانے میں بندوق اور بم کا رواج نہیں تھا اس لیے اس کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اس لیے بندوق، رائفل، پستول اور دستی بم وغیرہ بھی لوہے کے اسلحہ یا آگ میں شمار ہوں گے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالینے قتل عمد میں لوہے کے بننے والے اسلحہ کا اعتبار کیا ہے۔ اور صاحبین اور دوسرے ائمہ نے زخم کا اعتبار کیا ہے یعنی جس چیزیاجس طریقہ سے آدمی کو قصداً قتل کیا جا سکتا ہے اسی کا اعتبار کیا ہے۔ مثلاً کوئی کسی کا گلا گھونٹ دے یا کسی کو دھکا دے کر گرا