جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
پھر اس مسئلے کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وقدرناہ بقدر الدرہم اخذا عن موضع الاستنجائ ہدایہ اولین ص58 ہم نے ایک درہم کے برابر (گندگی کی معافی) کو اس لیے مقرر کیا کہ دبر کا ڈائیا میٹر اتنا ہوتا ہے۔ حالانکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلمگندگی کو یوں دھونے کا حکم فرما رہے ہیں: عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ أَنَّہَا قَالَتْ سَأَلَتْ امْرَأَۃٌ رَسُولَ اللَّہِ علیہ الصلوۃ والسلام فَقَالَتْ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَرَأَیْتَ إِحْدَانَا إِذَا أَصَابَ ثَوْبَہَا الدَّمُ مِنْ الْحَیْضَۃِ کَیْفَ تَصْنَعُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ علیہ الصلوۃ والسلام إِذَا أَصَابَ ثَوْبَ إِحْدَاکُنَّ الدَّمُ مِنْ الْحَیْضَۃِ فَلْتَقْرُصْہُ ثُمَّ لِتَنْضَحْہُ بِمَائٍ ثُمَّ لِتُصَلِّی فِیہِ بخاری307 اسماء بنت ابی بکر سے روایت ہے کہ ایک عورت نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلمسے آ کر پوچھا کہ اگر ہمارے کپڑوں پر حیض کا خون لگ جائے تو ہم کیا کریں؟ تو آپعلیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: جب تمہارے کپڑے پر حیض کا خون لگ جائے تو اسے کھرچ دو پھر اسے پانی سے دھو ڈالو پھر ان کپڑوں میں نماز پڑھو۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلمکو چاہیے تھا کہ آپ فرماتے ایک درہم کے برابر اگر خون لگا ہوا ہے تو اس میں نماز پڑھ لو اور اگر زائد ہے تو دھو لو۔ کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے؟ ص31 تا 33ساتویں اعتراض کا جواب بے شک فقہاء علیہم الرحمۃ نے ایسا لکھا ہے لیکنیہ معافی بہ نسبت صحت نماز