جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
احناف پر ایک اور الزام طالب الرحمن نے لکھا ہے: احناف چوروں کو چوری کرنے کا طریقے سمجھاتے ہیں۔ اس کے جواب میں ہم اتنا ہی کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے : لَعْنَۃُ اﷲِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کسی حنفی عالم نے یہ بات نہیں کہی۔ اب رہی ان تین مخصوص واقعات کی بات جو طالب الرحمن نے ہدایہ سے نقل کیے ہیں تو ان کی وضاحت کرنے سے پہلے ہم ایک اصولی بات عرض کرتے ہیں۔ تاکہ ان مسائل کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے۔ایک اصولی بات : جو بھی کسی کا مال ناجائز طریقے سے لے لے شریعت میں ضروری نہیں کہ اس کو سارق (چور) ہی کہا جائے۔ مثال کے طور پر جس آدمی نے امانت میں خیانت کی، اس نے بھی غیر کا مال ناجائز طریقے سے حاصل کیا ہے مگر اسے نہ سارق (چور) کہا جاتا ہے اور نہ ہی اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔ جب کہ ایسا کرنا حرام ہے۔ مثال نمبر2: جو سود سے دوسرے کا مال حاصل کرے اس نے بھی غیر کا مال ناجائز طریقے سے حاصل کیا ہے۔ مگر اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا۔ حالانکہ سود قطعی حرام ہے۔ ایسے ہی بہت سے مخصوص واقعات شریعت میں موجود ہیں جن پر ہاتھ نہیں کاٹا جاتا۔ مگر دوسری سزائیں ضرور دی جاتی ہیں۔ ان میںسے چند واقعات ہم یہاں پر نقل کرتے ہیں۔