جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
اگر کوئی شخص کسی عورت پر یہ دعویٰ کر دے کہ یہ میری بیوی ہے اور وہ عورت انکار کرے پھر یہ شخص جھوٹے گواہ پیش کر کے اپنے حق میں قاضی سے فیصلہ لے لے تو ایسی صورت میں اس کے لیے اس عورت سے جماع جائز ہو گا اور اس عورت کا اپنے آپ کو اس کے قابو میں کر دینا جائز ہو گا امام ابو حنیفہ کے نزدیکیہ جائز ہے اور ابو یوسف کے ایک قول کے مطابق بھی جائز ہے۔ کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے؟ ص36، 37بارہویں اعتراض کا جواب : امام ابو حنیفہ کے نزدیک عقود، نسوخ، طلاق اور عتاق میں چند شرائط کے ساتھ جھوٹے گواہوں سے بھی قاضی کا فیصلہ ظاہراً اور باطناً نافذ ہو جاتا ہے۔ امام ابو حنیفہ کے مسلک کے دلائل ملاحظہ فرمائیں۔ دلیل نمبر1 علامہ شامی امام محمد کی کتاب الاصل کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں: قال محمد فی الاصل بلغنا عن علی کرم اﷲ وجہہ ان رجلا اقام عندہ بینۃ علی امراۃ انہ تزوجھا فانکرت فقضی لہ بالبینۃ فقالت انہ لم یتزوجنی فاما اذا قضیت علی فجدد نکاحی فقال لا اجدد نکاحک الشاہدان زوجاک وقال وبھذا ناخذ رد المحتار ج4 ص516 امام محمد نے مبسوط (الاصل) میں ذکر کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہسے انہیںیہ روایت پہنچی ہے کہ ایک شخص نے ان کے پاس ایک عورت کے نکاح پر (جھوٹے) گواہ پیش کر دیے۔ مگر عورت نے اپنے ساتھ اس کا نکاح تسلیم کرنے