جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
اجتماعی جرمانہ یا قسامت اگر کوئی قتل اس طرح پر ہو گیا کہ متعین طور پر قاتل کا پتہ نہیں چلا تو اس قبیلے پر دیت آئے گی۔ صحیحین میں مذکور ہے کہ جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلمنے یہود اور انصار کے درمیان ایک فیصلہ کیا۔ آپ نے خویصہ، محیصہ اور عبدالرحمن سے ایک قتل کے معاملہ میں فرمایا کہ کیا آپ لوگ قسم کھا سکتے ہیں کہ آپ لوگ اپنے مقتول کے خون کے واجبی حق دار ہیں؟انہوں نے جواب دیا ہم نے نہ قاتل کو دیکھا ہے اور نہ اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ تب حضورعلیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا پھر یہودیوں سے پچاس قسمیں لے کر چھوڑ دو۔ انہوں نے جواب دیا ہم ان کی قسموں کا اعتبار نہیں کرتے۔ پس جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلمنے اس کی دیت اپنے پاس سے ادا کی۔ احادیث کے الفاظ میں اختلاف ہے۔ بعض میں ہے اپنے پاس سے دیت دی۔ اور بعض میں ہے کہ صدقہ کے اونٹوں سے دیت ادا کی اور ابوداود میں ہے کہ اس کی دیتیہود پر ڈالی گئی،کیونکہ مقتول ان کے محلہ ہی میں پایا گیا تھا اور مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ قسم لینے کی ابتدا آپ نے یہود سے کی تھی تو انہوں نے انکار کر دیا، پھر انصار سے فرمایا تو انہوں نے انکار کر دیا تو آپ نے یہ دیتیہود پر مقرر فرمائی اور اس میں کچھ اعانت بھی کی۔ یہ پورا قصہ موطا امام مالک میں مروی ہے۔ تفصیل کے لیےملاحظہ ہواوجز المسالک جلد5 ص525 اس فیصلہ سے چند امور ثابت ہیں: الف۔ قسامت یا اجتماعی جرمانہ کا حکم شرعی حکم ہے۔