جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
الرحمن نے جو آیت نقل کی ہے وہ سورہ توبہ کی ہے مگر طالب الرحمن نے سورۃ النور کے حوالہ سے اس کو لکھا ہے۔ قرآن پاک میں دو آیات ہیں۔پہلی آیت : اُولٰٓئِکَمَاکَانَلَہُمْاَنْیَّدْخُلُوْہَا اِلاَّ خَآئِفِیْنَ لہُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَلَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ البقرۃ: 114 ان کے لیے روا نہیں کہ ان مساجد میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے، ان کے لیے دنیا میں رسوائی (جزیہ دینے کی) اور آخرت میں عذاب ہے بڑا۔ علامہ آلوسی روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ امام صاحب نے اسی آیت سے ثابت کیا ہے کہ اہل ذمہ کا مساجد میں داخل ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں جب کہ وہ مغلوب و مقہور ہوں۔دوسری آیت : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمنے 9 ہجری میں حضرت ابو بکر اور حضرت علی رضی اللہ تعا لی عنہماسے اعلان کروایا جو خدا کی طرف سے تھا۔ یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلاَ یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَاوَاِنْخِفْتُمْعَیْلَۃً فَسَوْفَ یُغْنِیْکُمُ اللّٰہُ التوبہ:28 اے ایمان والو! مشرک (اعتقاداً) نرے مشرک ہیں (اور چونکہ اعتقادی ناپاکوں کی کوئی عبادت قبول نہیں اس لیے وہ حج کے لیے) مسجد حرام کے قریب بھی نہ پھٹکیں اس سال کے بعد (سال کا لفظ اس لیے فرمایا کہ حج کے لیے آنا سال کے بعد ہی