جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
الحدث من الدبر کما افادہ ابراہیم النخعی بقولہٖ انہم استکرہوا ذکر المقاعد فی مجالسہم فکنوا عنہ بالدرہم ویعضدہ ما ذکرہ المشائخ عن عمر انہ سئل عن القلیل من النجاسۃ فی الثوب فقال اذا کان مثل ظفری ہذا لا یمنع جواز الصلٰوۃ قالوا وظفرہ کان قریبا من کفنا۔ شامی ص231 ج1 شرح منیہ میں کہا ہے کہ نجاست قلیل اجماعاً معاف ہے کیونکہ پتھروں سے استنجاء کرنا بالاجماع کافی ہے اور وہ نجاست کو بالکل ختم نہیں کرتا۔ اور درہم کا اندازہ حضرت عمر و علی و ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہمسے مروی ہے چونکہ اس میں رائے کا دخل نہیں اس لیے سماع پر محمول ہو گا۔ اور حلیہ میں ہے کہ درہم کا اندازہ بطور کنایہ ہے دبر سے جیسے کہ ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ لوگوں نے اپنی مجالس میں مقاعد کا ذکر برا سمجھا تو کنایۃًاسے درہم سے تعبیر کیا۔ اور اسی کی تائید کرتا ہے جو مشائخ نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہسے کہ جب آپ رضی اللہ عنہ سے قلیل نجاست کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا جب میرے ناخن کے مثل ہو تو نماز کے جواز کو منع نہیں کرتا۔ کہتے ہیں کہ آپ کا ناخن ہماری ہتھیلی (کے مقر) کے برابر تھا۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ قدر درہم بھی صحابہ سے مروی ہے۔ وﷲ الحمد۔مرغی وغیرہ کی بیٹ کا مسئلہ یہاں تک قدر درہم کی بحث تھی۔ اب ہم مرغی کی بیٹ وغیرہ کا جو مسئلہ ہے اس کی تھوڑی سی وضاحت کرتے ہیں۔