جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
باندی کا قتل صحیحین میں ہے کہ ایکیہودی نے ایک انصاری کی باندی کو زیور کے لالچ میں دو پتھروں سے سر کچل کر مار ڈالا اور وہ پکڑا گیا۔ ابو داود نے روایت کیا ہے کہ وہ باندی ابھی زندہ تھی جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلمنے اس سے دریافت فرمایا کیا تجھے فلاں نے قتل کیا ہے؟ اس نے سر کے اشارے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح چند آدمیوں کا نام لیا جب اس یہودی کا نام لیا تو اقرار کیا ہاں نے اس نے مارا ہے۔ اس کے بعد اس یہودی نے بھی اعتراف کیا۔ جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلمنے بھی اس کا سر پتھر سے کچل کر قتل کرا دیا۔ اس حدیث میں دلیل ہے کہ مرد کو عورت کے بدلہ قتل کیا جائے گا۔ اور یہ بھی ہے کہ جیسا مجرم نے کیا ہے ویسا ہی اس کے ساتھ بھی کیا جائے گا۔ اور یہ بھی ہے قتل ایک قانونی جرم ہے اولیائے مقتول کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے اور نہ اس کے سپرد کرنے کی ضرورت ہے کہ وہی انتقام لے اور یہ آپ نے نہیں فرمایا کہ چاہو اس کو معاف کر دو اور چاہے اس کو قتل کر دو، بلکہ آپ نے اس کو قتل کرا دیا۔ امام مالک اور امام شافعی کا یہی مسلک ہے اور اسی کو امام ابن تیمیہ نے اختیار کیا ہے۔ زاد المعاد رواہ ابو داود امام ابوحنیفہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اب قتل کی سزا صرف تلوار کے ذریعہ قتل کرنا ہے اور دوسرے ظالمانہ طریقے اختیار نہیں کیے جائیں گے کیونکہ جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا ہے۔ لا قود الا بالسیفقصاص صرف تلوار ہی سے لیا جائے گا۔