جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
دوسری بات اس جگہ قابل غور یہ ہے کہ لفظ سرقہ کا لغوی مفہوم اور شرعی تعریف کیا ہے۔ قاموس میں ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا مال کسی محفوظ جگہ سے بغیر اس کی اجازت کے چھپ کر لے لے، اس کو سرقہ کہتے ہیں۔ یہی اس کی شرعی تعریف ہے۔ تفسیر معارف القرآن جلد نمبر3 ص129، 130، سورۃ مائدہ آیت نمبر38 7۔ مولانا مجیب اﷲ ندوی حنفی لکھتے ہیں: یہ تمام شرائط اگر پائی جاتی ہوں تو چوری کرنے والے کو سارق (چور) اور اس مال کو مسروقہ قرار دے کر قرآن کے حکم کے مطابق قطع ید کا حکم دیا جائے گا۔ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَہُمَا جَزَآئً بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ چور مرد اور چور عورت کے (داہنے) ہاتھوں کو کاٹ دو یہ بدلہ ہے اس جرم کا جو انہوں نے نے کیا ہے یہ سزا ہے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے۔ اسلامی فقہ جلد3 ص78، باب حد سرقہ ناشر پروگریسو بکس لاہور 8۔ مفتی معاویہ حنفی لکھتے ہیں: حد سرقہ، قرآن مجید میں ہے: وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَہُمَا خلاصہ مسند امام اعظم ص220، مکتبہ عمر فاروق کراچی 9۔ موطا امام محمد میں ہے: اسی طرح چور آیا اور اس نے اتنی چوری کی جس کی قیمت ڈھال کے برابر ہو تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔) اس زمانہ میں ڈھال کی قیمت دس درہم ہوتی تھی(۔ اس سے