جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
سوال: چور کے لیے پاکیزہ شریعت میں کون سی سزا مقرر کی گئی ہے؟ جواب: جب بالغ عاقل آزاد ہو یا غلام نر ہو یا مادہ، دس درہم یا دس درہم کی قیمت ایسے محفوظ مقام سے چرائے جس میں شبہ نہ ہو تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے۔ وہ (دراہم) ٹھپہ دار ہوں یا غیر ٹھپہ دار۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَہُمَا جَزَآئً بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ اور چرانے والا مرد اور چرانے والی عورت تو ان کے داہنے ہاتھ کاٹ دو ان کے کردار کے عوض میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے سزا کے طور پر۔ الفلاح الضروری اردو ترجمہ التسہیل الضروری ص407، سرقہ کا بیان 6۔ مفتی محمد شفیع صاحب حنفی لکھتے ہیں: چوتھی آیت میں پھر جرائم کی سزاؤں کی طرف عود کیا گیا اور چوری کی سزائے شرعی کا بیان فرمایا گیا۔ شرعی سزاؤں کی تین قسمیں جو پہلے بیان ہو چکی ہیں چوری کی سزا ان کی قسم حدود میں داخل ہے کیونکہ قرآن کریم نے اس سزا کو خود متعین فرمایا حکام کی صوابدید پر نہیںچھوڑا اور بطور حق اﷲ کے متعین فرمایا ہے۔ اس لیے اس کو حد سرقہ کہا جاتا ہے۔ آیت میں ارشاد ہے وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَہُمَا جَزَآئً بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ یعنی چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت کا ہاتھ کاٹ دو ان کے کردار کے بدلہ میں، اور اﷲ زبردست حکمت والا ہے۔