جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
3۔ شرح وقایہ میں ہے: چوری اس کو کہتے ہیں کہ عاقل بالغ شخص کسی کا مال مملوک جو دس درم سکہ دار یا زیادہ قیمت کا ہووے اور محفوظ جگہ میں رکھا ہو پوشیدہ لے لیوے۔ تو اگر مکلف یعنی عاقل بالغ نے اگرچہ غلام ہو، چرایا دس درم یا زیادہ کے مال کو اور وہ مال محفوظ ہو بلاشبہ مکان میں مانند گھر کے یا صندوق کے یا راہ میں کسی محافظ کے جو بیٹھا ہو یا مسجد میں اور مال اس کا اس کے پاس ہو۔ امام اعظم اور امام محمد کے نزدیک اور اس کے لینے کا وہ ایک بار اقرار کرے اور امام ابو یوسف کے نزدیک دو بار اقرار کرے یا دو مرد اس کی چوری پر گواہی دیں اور امام ان سے پوچھ لیوے کہ سرقہ کیسا ہے اور کیا ہے اور کب ہوا اور کس جگہ ہوا اور کتنے مال کا ہوا اور کس کے مال کا ہوا اور وہ گواہ بیان کریں ان سب باتوں کو تو ہاتھ اس کا کاٹا جاوے۔ شرح وقایہ اردو کتاب السرقہ 4۔ ہدایہ میں ہے: فرمایا (صاحب قدوری نے) کہ اگر عاقل، بالغ نے دس درہم یا سکہ دار چیز جو اس (دس درہم) کی قیمت کو پہنچتی ہو محفوظ مقام (حرز) سے چرائی ہو۔ اس (مسروقہ چیز) میں شبہ نہ ہو تو اس (چور) پر قطع (ہاتھ کاٹنا) واجب ہو گا اور اس میں اصل دلیل اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَہُمَا اور چور مرد، چور عورت پس ان دونوں کے ہاتھ کاٹ دو الخ۔ اشرف الہدایہ ترجمہ اردو ہدایہ جلد نمبر6، ص754، کتاب السرقہ 5۔ التسہیل الضروریلمسائل القدوری میں ہے: