جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
زیادہ حق دار قرار دیا ہے۔ اگر ان تمام صفات میں برابر ہوں تو پھر نزل الابرار کے قول کے مطابق بڑے سر اور چھوٹے قدموں والا زیادہ حق دار ہے جس کی بنا اس مشہور پنجابی مثل پر ہے۔ ”سر وڈے سرداراں دے، پیر وڈے گنواراں دے“ یعنی سر کا بڑا ہونا سرداری کی علامت اور پاؤں کا بڑا ہونا گنوار پن کی علامت ہے۔ لیکن در مختار میںقدما کی جگہ الاصغر عضوا کے لفظ ہیں۔ عضو کا معنی جوڑ ہے۔ علامہ شامی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اعضاء متناسب ہوں، اس کے لیے سر کا بڑا ہونا اور دوسرے اعضاء کا چھوٹا ہونا یہ اس کے ترکیب مزاج کے خلل کی دلیل ہے جس کو عدم اعتدال عقل لازم ہے۔ تو خلاصہ یہ نکلا کہ امام معتدل عقل والا ہونا چاہیے۔ غیر مقلدین کو اگر یہ چیز اچھی نہیں لگتی تو ان کو پاگل امام مبارک ہوں۔ داؤد ارشد نے در مختار کی شرح کے جس صفحہ کا حوالہ دے کر یہ لکھا ہے کہ شارح فرماتے ہیں کہ مراد اس سے ذکر ہے یہ علامہ شامی پر جھوٹ ہے۔ علامہ شامی نے حاشیہ ابو سعود سے اس کی تردید نقل کی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: حاشیہ ابو سعود میں ہے کہ بعض لوگوں سے اس مقام میں وہ بات نقل کی گئی ہے جو ذکر کے لائق نہیں چہ جائے کہ اس کو کتاب میں لکھا جائے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ گویا ابوسعود اس بات کی طرف اشارہ کر رہےہیں جو بیان کی جاتی ہے کہ عضو سے مراد ذکر ہے۔ شامی ص558