جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
قابل نہیں کہ اسے ذکر کیا جائے چہ جائے کہ لکھا جائے گویا اس طرف اشارہ ہے جو کہا گیا ہے کہ مراد عضو سے آلہ تناسل ہے۔ اورمنحۃ الخالق ج1 ص348 پر بھی اس بات کی تردید کی ہے کہ عضو سے مراد آلہ تناسل ہے۔ غور فرما لیجیے کہ فقہائے احناف یہ کہہ رہے ہیں کہ عضو سے آلہ تناسل مراد نہیں بلکہ بدن کے اندام مراد ہیں لیکن ہمارا مہربان اس بات پر ڈٹ کر کھڑا ہے کہ مراد عضو سے آلہ تناسل ہے۔من چہ گویم و طب نور من چہ گویدوالی بات ہے۔ دانش مندوں کا مقولہ ہے کل اناء یترشح بما فیہ ثانیاً بدن میں واحد عضو ناک بھی ہے شیر سرحد کو صرف آلہ تناسل کیوں نظر آیا؟ مشہور ہے کسی بھوکے سے کسی نے پوچھا کہ دو اور دو کتنے ہو گئے؟ کہا چار روٹیاں۔ ثالثاً انسان کے جسم میں جو ایک سے زائد اعضاء ہیں کبھی کبھار بطور جنس واحد کا صیغہ بھی ان پر بولا جاتا ہے لیکن مراد واحد نہ ہو۔ جیسا کہ حضورعلیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ یہاں پر واحد کا صیغہ ہے لیکن مراد صرف ایک نہیں بلکہ دونوں ہاتھ مراد ہیں بقول نورستانی لفظ ید واحد کا صیغہ ہے تو دونوں ہاتھوں سے برائی کا روکنا حدیث کا خلاف ہو گا۔ اسی طرح حضورعلیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: