جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
پوچھا کہ میری والدہ وفات پا گئی ہیں اور ان کے ذمہ رمضان کے روزے باقی تھے۔ تو کیا میں ان کی طرف سے قضا کر لوں؟ حضرت عائشہ نے فرمایا نہیں بلکہ اس کی طرف سے ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین پر صدقہ کرو۔ یہ تمہارے روزے رکھنے سے بہتر ہے۔ مشکل الآثار ج3 ص142، المحلی ابن حزم ج7 ص4 علامہ مار دینی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ الجوہر النقی ج4 ص25 4۔ حضرت عبداﷲ بن عباس فرماتے ہیں کہ جس شخص کے ذمے رمضان کے روزے باقی ہوں اور وہ مر جائے تو اس کی طرف سے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے۔ مصنف عبدالرزاق ج4 ص237 5۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر فرماتے ہیں کوئی آدمی دوسرے آدمی کی طرف سے ہر گز نماز نہ پڑھے اور نہ دوسرے کی طرف سے روزہ رکھے بلکہ اگر تم کرنا ہی چاہتے ہو تو اس کی طرف سے صدقہ کر دو یا ہدیہ دے دو۔ مصنف عبد الرزاق ج9 ص61، سنن الکبریٰج4 ص254، موطامالک ص245 6۔ علاوہ ازیں صحابہ کرام کے دور میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جس میں کسی دوسرے آدمی کی طرف سے نماز یا روزہ ادا کرنے کو جائز قرار دیا گیا ہو۔ چنانچہ امام مالک فرماتے ہیں میں نے مدینہ منورہ میں صحابہ کرام یا تابعین میں سے کسی کے بارے میںیہ نہیں سنا کہ انہوں نے کسی دوسرے شخص کی طرف سے نماز یا روزہ ادا کرنے کا حکم دیا ہو بلکہ وہ سب اپنا عمل اپنے ہی لیے کرتے ہیں اور کوئی شخص بھی دوسرے کی طرف سے عمل نہیں کرتا۔ نصب الرایہ ج2 ص463