جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
رہی وہ روایت جو طالب الرحمن نے نقل کی ہے اس کا مندرجہ بالا قوی اور صحیح دلائل کی روشنی میں ایسا مفہوم مراد لینا ضروری ہے جو مذکورہ احادیث کے خلاف نہ ہو۔ بالخصوص جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ روایات میں بظاہر نبیکریم صلی اللہ علیہ وسلمنے نیابتاً روزہ رکھنے کی اجازت دی ہے۔ ان کو روایت کرنے والے صحابہ کرام میں حضرت عائشہ اور عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہمبھی شامل ہیں۔ لیکن ان دونوں کا فتویٰ اس کے خلاف ہے، جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ چنانچہ اس روایت کی ایک توجیہیہ کی گئی ہے کہ پہلے نیابتاً روزہ رکھنے کی اجازت تھی جو کہ بعد میں منسوخ ہو گئی اور اس کے منسوخ ہونے کا قرینہیہ ہے کہ حضرت عائشہ اور حضرت عبداﷲ بنرضی اللہ عنہماجو کہ اجازت کی روایات کے راوی ہیں۔ ان کا فتویٰ اس کے خلاف موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر اجازت منسوخ نہ ہو گئی ہوتی تو یہ دونوں حضرات اس کے خلاف فتویٰ نہ دیتے۔ دوسری توجیہیہ ہے کہ اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ میت کی طرف سے نائب بن کر روزہ رکھا جائے بلکہ مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی طرف سے نفلی روزہ رکھ کر اس کا ثواب میت کی روح کو پہنچا دے۔ تیسری توجیہیہ بھی ہو سکتی ہے یعنی اس کی طرف سے روزہ رکھنے کا مطلب ہے کھانے سے اس کا تدارک کر دینا۔ پس جب مساکین کو کھانا دینے سے وہ میت روزے سے بری ہو گی تو گویا اس شخص نے اس کی طرف سے روزے ادا کیے۔ ظاہر ہے اگر میت کے طرف سے روزے رکھنا جائز ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اس کے خلاف فتوی کیوں دیتے؟