جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
جیسے نماز اور روزہ ان میں کسی دوسرے آدمی کی نیابت کرنے سے یہ عبادتیں ادا نہیں ہوتیں۔ البتہ جو عبادات محض بدنی نہیں بلکہ مالی بھی ہیں۔ جیسے حج ان میں اگر اصل شخص عاجز ہو جائے تو دوسرا شخص اس کا نائب بن کر اس کی طرف سے عبادات ادا کر سکتا ہے۔ رہیں وہ عبادات جو محض مالی ہیں جیسے زکوٰۃ اور صدقہ فطر تو ان میںمطلقاً نیابت درست ہے۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ امام صاحب کے نزدیک نماز یا روزہ کوئی شخص دوسرے کی طرف سے نائب بن کر ادا نہیں کر سکتا البتہ روزے کا فدیہ دوسرے شخص کی طرف سے ادا کیا جا سکتا ہے۔ یہی مسلک امام شافعی امام مالک اور جمہور اہل علم کا ہے اور اس پر صریح اور واضح دلائل ملاحظہ فرمائیں۔ 1۔ حضرت عبداﷲ بنرضی اللہ عنہمافرماتے ہیں۔ کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کی طرف سے نماز نہ پڑھے اور نہ کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کی طرف سے روزہ رکھے بلکہ ہر روزے کے بدلے میں ایک مد کھانا کھلا دے۔ مشکل الآثار ج3 ص141 ابن حجر نے تلخیص الحبیر ج2 ص209 میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ 2۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ تعا لی عنہماسے روایت ہے کہ حضور نے فرمایا جو شخص مرجائے اور اس کے ذمے مہینے کے روزے لازم ہوں تو اس کی طرف سے ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ ترمذی ج1 ص152 عمدۃ القاری میں اس کی سند کو امام قرطبیکے حوالے سے حسن قرار دیا گیا ہے۔ 3۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعا لی عنہاسے عمرہ بنت عبد الرحمن نے