جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
اس پر ہو گا کہ کھڑا آدمی اس انداز کا جھک جائے کہ وہ اپنی ہتھیلیوں کو اپنے گھٹنوں سے لگا لے طمانیت کے ساتھ۔ پس اگر اس نے جھکنے کی حرکت اور اٹھنے کی حرکت کے درمیان فاصلہ نہ کیا تو اس کی نماز جائز ہو گی۔ نزل الابرار ج1 ص78 احناف کے نزدیک جس حدیث میں جس صحابی کو اطمینان سے نماز پڑھنے کی تعلیم دی گئی ہے اس میں رکوع اور سجدہ کو مکمل کرنے کا اطمینان بھی مراد ہو سکتا ہے اور اس سے زائد بھی۔ اگر اس سے وہ اطمینان مراد ہے جس سے سجدہ اور رکوع مکمل ہوتا ہے تو یہ احناف کے نزدیک بھی فرض ہے اور جو شخص اس کو ترک کرتا ہے اس کا رکوع اور سجدہ نہ ہونے کی وجہ سے نماز ہی نہ ہوگی۔ اور امام بخاری کے انداز سے بھییہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھییہی اطمینان مراد ہے جس کے بغیر رکوع اور سجدہ پورا نہیں ہوتا ۔چنانچہ وہ باب قائم کرتے ہیں”باب اذا لم یتم الرکوع اور باب امر النبیعلیہ الصلوۃ والسلام الذی لا یتم رکوعہ بالاعادۃ“ پھر آگے وہی نماز کی تعلیم والی روایت ذکر کی ہے۔ بخاری ج1 ص109 جب آدمی رکوع پورا نہ کرے تو اس کے بیان میں اور نبیکریم صلی اللہ علیہ وسلمکا اس آدمی کو نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم جس نے رکوع پورا نہیں کیا تھا اس کے بیان میں باب۔ اور رکوع اور سجدہ کے مکمل ہونے کے بارہ میں حضور نبیکریم صلی اللہ علیہ وسلمکا ارشاد یہ ہے۔ لا تجزیٔ صلٰوۃ الرجل حتییقیم ظہرہ فی الرکوع والسجود ابوداود، ج1 ص124