جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
رکوع اور سجدہ ہوتا ہی نہیں اور وہ یہ ہے کہ پہلی حرکت ختم ہو جائے۔ اور یہ امام ابوحنیفہ اور امام محمد رحمہم اللہ تعالیکے نزدیک واجب ہے اور امام ابو یوسف اور امام شافعی رحمہم اللہ تعالیکے نزدیک فرض ہےیعنی رکوع کی جانب جھکنے کی حرکت مکمل ہو جائے اور رکوع کی حالت شروع ہو جائے۔اسی طرح سجدہ کی جانب جھکنے کی حرکت مکمل ہو جائے اور سجدہ کی حالت شروع ہو جائے اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ ہر جوڑ اپنی جگہ پر آ جائے۔جیسا کہ علامہ برکلی نے معدل الصلوٰۃ میں لکھا ہے۔ اور طمانیت کی دوسری حالت یہ ہے کہ رکوع و سجدہ کی حالت مکمل ہونے کے بعد ایک تسبیح کی مقدار اسی حالت میں رہنا یہ باقی حضرات کے نزدیک واجب ہے اور امام ابوحنیفہ سے روایتیہ ہے کہ سنت ہے اور طمانیت کی تیسری حالت یہ ہے کہ رکوع و سجدہ کی حالت مکمل ہونے کے بعد تین تسبیحات کی مقدار تک اسی حالت میں رہنا تو یہ سنت ہے۔ اسی کو علامہ ابن حجر نے امام طحاوی سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ تین تسبیحات کی مقدار تک رکوع اور سجدہ میں رہنا یہ رکوع اور سجدہ کیمقدار ہے۔ ”وخالفہم اخرون فقالوا اذا استوی راکعا واطمان ساجدا اجزاء ثمقال وہذا قول ابی حنیفۃ وابییوسف ومحمد فتح الباری جلد اول ص422 اور دوسرے لوگوں نے اس نظریہ کی مخالفت کی اور کہا کہ جب آدمی رکوع میں برابر ہو جائے اور سجدہ میں اطمینان کر لے تو یہ جائز ہے اور یہ قول امام ابوحنیفہ، ابو یوسف اور امام محمد کا ہے۔ غیر مقلد عالم علامہ وحید الزمان صاحب فرماتے ہیں کہ رکوع کا کم از کم اطلاق