جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
آدمی کی نماز اس وقت تک جائز نہیں ہوتی جب تک رکوع اور سجدہ میں اپنی پشت کو برابر نہ کرے۔ اور اگر حدیث میں رکوع اور سجدہ کی حالت میں پہنچ جانے کے بعد اس سے زائد اطمینان مراد ہے تو مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ امام صاحب نے اس کو سنت اور باقی احناف نے واجب اور شوافع نے اس کو فرض کہا ہے۔ فرض نہ ہونے کے دلیلیہ ہے کہ آپعلیہ الصلوۃ والسلام نے تعدیل میں نقص کو نماز کا نقصان بتایا ہے۔ اور نماز میں سنت کو چھوڑ دینے سے نماز مع الکراہت ہو جاتی ہے اسی وجہ سے فتاویٰ عالمگیری میں امام صاحب اور امام محمد کے نزدیک مسئلہ کی جو صورت تھی اس کو بیان کیا کہ فان ترک الطمانیۃ تجوز صلوتہ عند ابی حنیفۃ ومحمد عالمگیری ج1 ص74 پس اگر نمازی نے طمانیت کو چھوڑ دیا تو اس کی نماز امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک ہو جائے گی۔ اور اس طمانیت سے مراد بقدر تسبیحیا اس سے زائد اطمینان ہے اور اس سے پہلے عالمگیری میں ہے کہ اگر کسی نے صرف ایک دفعہ تسبیح کہی تو یہ جائز تو ہے مگر مکروہ ہے۔ عالمگیری کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس کا درجہ فرض واجب نہیں بلکہ اس سے کم کا ہے اسی لیے امام صاحب سے روایت اس کے سنت ہونے کی ہے جب کہ احناف کا مفتی بہ قول اس کے وجوب کا ہے۔ جس کے بھول کر چھوڑنے کی وجہ سے سجدہ سہو لازم آتا ہے۔ اور جان بوجھ کر چھوڑنے سے نماز کا اعادہ لازم آتا ہے۔ ملاحظہ ہو البحر الرائق ج1 ص299، 300، بہشتی زیور ص119