جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
جاری ہو جاتی ہے شروع کرتے ہیں۔ فتح القدیر میں ہے کہ امام صاحب کے نزدیک ظاہر اور باطن میں قضا نافذ ہو گی کہ جس میں قاضی کو انشائے عقد ممکن ہو پس اگر دوسرے کی عدت میں ہو گییامطلقۃ الثلث غیر کی ہو گی تو اس صورت میں قاضی کو انشائی عقد کا اختیار نہ ہو گا کیونکہ قاضی دوسرے کے مال کی تملیک کا بغیر عوض کے مالک نہیں ہوتا۔ اور مقصود قضا سے قطع منازعت ہے اور اس صورت میںجھگڑا طے نہیں ہو سکتا۔ مگر جب قضا باطن میں نافذ ہو اس واسطے کہ اگر حرمت باقی رہے گی تو پھر منازعت وطی کی طلب میں مکرر ہو گی اور دوسرا منع کرے گا کیونکہ حقیقت حال جانتا ہے۔ پس ضرور ہوا پہلے ہونا انشاء کا پس گویا قاضی نے کہہ دیا کہ میں نے تمہارا نکاح کیا اور اس کے ساتھ حکم دیا اس کے بعد لکھا ہے وقول ابی حنیفہ اوجہ یعنی اور قول امام صاحب کا زیادہ مدلل ہے ۔انتہی اور امام طحاوی لکھتے ہیں: فیثبت الحل عند اﷲ تعالٰی وان اثم المدعی اثم اقدامہ علی الدعوی الکاذبۃ یعنی پس ثابت ہو گی حلت نزدیک اﷲ تعالیٰ کے اگرچہ گنہگار ہو گا مدعی گناہ پیش قدمی کرنے اپنے کا اوپر جھوٹے دعوے کے۔انتہی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ گناہ اس کو بے شک ہو گا۔ ایسے ہی بحر الرائق کی اس عبارت سے واضح ہوتا ہے لا یلزم من القول بحل الوطیء عدم اثمہ فانہ اثم بسبب اقدامہ علی الدعوی الباطلۃ وان کان لا اثم علیہ بسبب الوطی