جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
یعنی نہیں لازم آتا قائل ہونے حلت وطی سے نہ گنہگار ہونا اس کا اس لیے کہ وہ گنہگار ہے بسبب پیش قدمی کرنے اس کے کے اوپر دعویٰ باطل کے اگرچہ نہیں گناہ ہے اس پر بسبب وطی کے۔انتہی اس عبارت سے بھی معلوم ہوا کہ گناہ اس کے ذمے پر رہے گا پر اس کے واسطے جو کچھ وعید آئی ہے اسی کذب کا بدلہ ہو گا اس وجہ سے بھی قول امام صاحب کا حدیث کے مخالف نہ ہوا بلکہ عین موافق ہو گیا اور طحطاوی میں لکھا ہے کہ امام صاحب کی ایکیہ بھی دلیل ہے کہ اس میں سب کا اجماع ہے کہ جو شخص کسی لونڈی کو خریدے پھر جھوٹا دعوی کرے فسخ بیعکا اور وہ گواہ لاوے پس قاضی حکم کر دے تو بائع کو وطی اس کنیز کی حلال ہو گی اور اس سے خدمت لینا بھی حلال ہو گا باوجود جاننے اس کہ کہ دعویٰ مشتری کا جھوٹا ہے حالانکہ اس میں تو آزاد کر کے بھی خلاصی پا سکتا ہے گو اس کے مال کا تلف ہے۔انتہی اسی طرح امام صاحب کہتے ہیںیہاں مابہ الفرق کون سی شی ہے جس سے یہاں وطی جائز ہو اور وہاں جائز نہ ہو اور بہت دلائل امام صاحب کے بوجہ اختصار کے یہاں بیان نہیں ہوئے ورنہ اس بحث کو ایک دفتر چاہیے مگر حیف ہے کہ باوجود ایسے عمدہ دلائل اور براہین کے آپ کا مخالف قرآن و حدیث کے بتلانا دو حال سے خالی نہیںیا تو حدیث کا مطلب آپ خود نہیں سمجھے یا دانستہ یہ شیوہ اختیار کیا ہے مگر یہ احتمال تو ہم نہیں لے سکتے کیونکہ کون سا مسلمان ہے جو ایسی باتیں دانستہ کر کے اپنے تئیںگنہگار بنائے گا ہاں آپ کے فہم میں خطا واقع ہوئی خیریہ خطائے اجتہادی ہے اس میں آپ معذور ہیں خدائے تعالیٰ آپ کو ذہن رسا اور طبع سلیم عنایت فرماوے آمین ثم آمین۔