جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
دینا سراسرہٹ دھرمی اور کج بحثی ہے۔ بلکہ اس میں قول ان کا چاہیے تھا کہ جن کو طرفین تسلیم کرتے ہیں جیسے کہ شاہ ولی اﷲ صاحب چنانچہ وہ عقد الجید اور انصاف فی بیان سبب الاختلاف میں لکھتے ہیں: جان تو کہ تحقیق امت نے اجماع کیا ہے اس پر کہ اعتماد کریں وہ سلف پر شریعت کے پہچاننے میں۔ پس تابعین نے اعتماد کیا اس میں صحابہ پر اور تبع تابعین نے تابعین پر اور اسی طرح ہر طبقے میں پچھلے علماء نے اگلے علماء پر اعتماد کیا۔اور عقل اس کی خوبی پر دلالت کرتی ہے اس لیے کہ شریعت نہیں پہچانی جاتی مگر ساتھ نقل اور استنباط کے اور نقل نہیں معتبر ہوتی مگر بایں طور کہ اخذ کرے ہر طبقہ متقدمینسے۔ تاکہ خارج نہ جاوے ان کے اقوال سے والا خارق اجماع ہو جاوے گا۔ اور چاہیے کہ بنا کریں اس پر اور استعانت کرے اس میں ان سے جو پہلے اس کے ہیں اور جب کہ اعتماد سلف پر متعین ہو گیا تو ضرور ہے اسے کہ ہوں اقوال ان کے کہ جن پر اعتماد کیا جاتا ہے، روایت کی گئی اسناد صحیح سے یا ان کی مشہور کتابوں میں مجتمع ہوں۔ اور یہ کہ ہوں محذومہ یعنی بیان کیا جائے راجح ان کے محتملات سے اور خاص کیا جائے اور عموم ان کا بعض مواقع میں اور مقید کیا جاوے مطلق ان کا بعض جا۔ پس جمع کیا جائے مختلف اور بیان کیے جائیں سبب ان کے احکام کے۔ اور نہیں تو صحیح نہ ہو گا ان پر نہیں ہے کوئی مذہب اس زمانہ اخیر میں اس صفت کا مگر یہ چار مذہب یا اﷲ مگر مذہب امامیہ اور زیدیہ کو وہ اہل بدعت ہیں نہیں جائز ہے اعتماد اس پر۔انتہی باقی تحقیق اس کتاب کے اول میں گزر چکی اگر جی چاہے ملاحظہ فرما لیجیے۔ اب امام صاحب کی طرف سے بعض دلائل اس کے کہ قضا ظاہر اور باطن میں سوا مال کے