جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
پہلوں پر کیونکر حجت ہو سکتے ہیںیا پچھلے لوگ اس کے پابند ہو کر تحقیقات سابق کس طرح ترک کر سکتے ہیں؟ البتہ اتنی بات ہم کو ضروری ہے کہ اگر کہیں مخالفت دیکھیں تو اس میں تطبیق کر دیں اس لیے کہ جب صحابہ ہی نعوذ باﷲ مخالفت کریں گے تو پھر موافقت کرنے والا کون آئے گا؟ پس ضروری ہوا کہ افعال صحابہ میں اور احادیث مرفوعہ میں حتی الامکان تطبیق دیں خصوصاً خلفائے راشدین کے فعل اور قول میں جن کے حق میں حدیثعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدینیعنی لازم پکڑو تم طریقہ میرے خلفائے راشدین کا، وارد ہے کیونکہان کا قول تو ضرور ہی سند ہو گا علی الخصوص حضرت علی کے حق میں اقضاہم علی وارد ہے۔ یعنی سب صحابہ میں زیادہ اور عمدہ فیصلہ کرنے والے علی ہیں۔ پھر یہ فرمانا حضرت علی کا کہ تیرے گواہوں نے تیرا نکاح کرا دیا صاف دلالت کرتا ہے کہ ایسے معاملات میں جو عقود سے تعلق رکھتے ہیں ظاہر اور باطن میں قضا نافذ ہو جاتی ہے اور حدیث صحیحین کی جس کا سیاق دلالت کرتا ہے کہ اموال میں وارد ہوئی ہے چنانچہ سند بھی اس کی ہم بیان کر چکے مطابق ہے پھر باوجود ایسی ظاہر تطبیق کے انکار کرنا آپ کو یوں سمجھنا ہے کہ جیسے فرقہ ظاہریہ سمجھے ایسا حدیث کو حضرت علی بھی نہیں سمجھے! اﷲ ایسے عقیدہ فاسد سے محفوظ رکھے۔ یہ لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ قول پیغمبر کے معنی جو ہم کہتے ہیں وہی مراد ہیں اور مرغے کی ایک ہی ٹانگ کہے جاتے ہیں ان کے اعتقاد میں صحابہ مرفوع حدیث کے بالکل مخالف تھے اسی لیے صحابہ کا قول نہیں مانتے نؤمن ببعض ونکفر ببعضیعنی بعض کے ساتھ ایمان لاتے ہیں ہم اور بعض سے ہم انکار کرتے انہیں کے حق میں صادق ہے