جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
اس کی صحت میں البتہ کلام ہے لیکن چونکہ اس کتاب میں مروی ہے لہٰذا کوئی اصل اس کی ضرور ہو گی۔ پس ایسے شخصوں کے تعلیقات کو ضعیف کہنا خالی از تعصب نہیں حالانکہ عادت مصنفین کی کبھییہ بھی رہی ہے کہ کل سند کو حذف کر دیتے ہیں اور فقط قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلمکہتے ہیں چنانچہ تصریح اس کی مقدمہ مشکوۃ میں موجود ہے خصوصا متقدمین کا تو یہی دستور تھا کہ وہ سند بیان نہیں کرتے تھے اور وجہ اس کییہ تھی کہ جب تک کذب نہ تھا سچے لوگ تھے۔ موافق اس حدیث کے خیر القرون قرنی الی مال ثم یفشو الکذبیعنی فرمایاآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمنے کہ سب قرنوں سے بہتر میرا قرن ہے پھر جو اس کے متصل ہے پھر اس کے متصل ہے پھر پھیل جائے گا جھوٹ۔انتہی اور ظاہر ہے کہ آپ کا زمانہ اور صحابہ کا ایک تھا اس کے بعد تابعین کا زمانہ ہوا پھر تبع تابعین کا پھر ان کے بعد ایسا جھوٹ پھیلا کہ لوگوں نے حدیثیں وضع کرنی شروع کیں۔ اسی لیے امام بخاری نے شروط لگائے ورنہ حدیث سے کہیں ان شروط کی تصریح نہیں۔یہ شروط فقط احتیاطاًتھے اور اس غرض سے کہ اب جو کوئی حدیث نقل کرے اس میں اتنی باتیں دیکھ لی جائیںجب اس سے اخذ کیا جائے۔ اس کے یہ معنی نہ تھے کہ پہلے؛ استاذ الاستاذہ امام بخاری کی جو حدیثیں بیان کر گئے ہیں ان میں بھی سند اتصال ضرور ہے۔ حاشا و کلا یہ فقط فرقہ ظاہریہ کی ایجاد تازہ سے ہے۔ بے شک امام محمد کے تعلیقات حکم میں اتصال کے ہیں مثل امام بخاری کے۔ چنانچہ اتفاق جمہور علمائے حنفیہ و مصنفین شافعیہ کا اس پر دلیل بدیہی ہے اور تنقیح الاصول میں بحث شرائط راوی میں مرسلات امام محمد کو حجت لکھا ہے اور جو قواعد بعد اس کے کسی مصلحت کے واسطے جاری کیے گئے وہ