جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
غرض کہ طرفینیعنی امام اعظم اور امام محمد اس کو مقید کرتے ہیں۔ اب ظاہر الفاظ حدیث سے اہل انصاف خود سمجھ لیں گے کہ قرینہ اموال کا ہے یا غیر اجتہاد کا۔ علاوہ اس کے حدیث حضرت علی کی جس کو آپ موقوف بتلاتے ہیں اور قابل حجت نہیں کہتے چنانچہ خلاصۃ الخلاصہ میں لکھا ہےوہو لیس بحجۃ عند الشافعییعنی اور موقوف نہیں ہے حجت نزدیک شافعی کے۔انتہی اور حنفیہ کے یہاں بے شک حجت ہے چنانچہ لمعات میں ہے: ومن مذہب ابی حنیفۃ وجوب تقلید الصحابی فیما قال یعنی اور مذہب امام صاحب کا واجب ہونا تقلید کا ہے اس چیز میں کہ کیا انہوں نے)ٍصحابہ نے(۔ انتہی اور اتقانی میں لکھا ہے: اعلم ان تقلید الصحابی واجب یعنی جان تو کہ تحقیق تقلید صحابی کی واجب ہے۔انتہی اوریہ جو آپ لکھتے ہیں کہ حدیث معلق ضعیف اور مردود شمار کی جاتی ہے سو جناب من! ہر معلق کا یہ حکم نہیں کہ بعضے اقسام معلق کے مقبول ہوتے ہیں۔ چنانچہ تصریح اس کی نخبۃ الفکر میں آپ کی عبارت منقول کے بعد موجود ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو تعلیقات بخاری میں قبل تصریح ابن حجر وغیرہ کے ضرور ضعف ہوتا حالانکہ تعلیقات بخاری حکم میں اتصال کے ہیں۔ کچھ ان کی تصریح پر اس کی صحت موقوف نہیں۔ البتہ بعضوں نے یہ فرق کیا ہے کہ جس میں امام بخاری صیغہ معروف لائے ہیں جیسے کہقال فلانیااذکر فلانوہ تو صحیح ہے اور جس میں صیغہ مجہول لائے ہیں جیسےقیلیایقال