جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
حدیث او روہ مال ہے ۔انتہی اس عبارت سے بھی معلوم ہوا کہ حدیث خاص مال میں وارد ہوئی ہے چنانچہ لفظ من حق اخیہ اوراقطع لہ قطعۃ من النار اس پر دلالت کرتا ہے دوسرا جواب یہ ہے کہ ظاہر اس حدیث کا دلالت کرتا ہے اس پر کہ یہ حدیث خاص ہے اس حکم میں کہ متعلق ہوتا ہے کلام خصم کے سننے سے اور گواہ اور قسم وہاں نہ ہوں سو اس میں نزاع نہیںکیونکہ نزاع تو اس حکم میں ہے جو گواہی پر مرتب ہوا۔انتہیٰ کیونکہالحن لحجتہ جس کے معنی خوب گفتگو کرنے والے کے ہیں جو جھوٹی بات کو بھی سچی کر دے۔ اس میں گواہ اور قسم کا کہیں ذکر نہیں جس میں اختلاف ہے۔ البتہ اگر فقط ان کی گفتگو پر کفایت کی جائے گی جیسا کہ ظاہر الفاظ حدیث کے اس پر دال ہیں تو اس وقت ظاہراً قضا واقع ہو گی اور امام صاحب بھی اس کے خلاف نہیں کہتے۔ البتہ جس میں گواہ اور قسم ہو اور اس میں امام صاحب فرماتے ہیں کہ قضا قاضی کی ظاہر اور باطن میں نافذ ہو گی۔ سو یہ بیان ہر گز حدیث سے نہیں نکلتا جو مخالفت ہو۔ علاوہ اس کے اگر اس حدیث کو عام رکھا جاوے تو پھر جمہور کی مخالفت لازم آتی ہے اس لیے کہ اس پر سب متفق ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمسے احکام میں خطا نہیں ہو سکتی اور اگر ایسا ہوا تو خدا کی طرف سے اطلاع ہو گئی۔ چنانچہ امام نووی جو محدثین میں سے ہیں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس کو خاص کرتے ہیں ساتھ غیر اجتہاد کےیعنی جس میں گواہ اور قسم ہو۔ پس معلوم ہوا کہ یہ حدیث جمہور کے نزدیک خاص ہے عام نہیں البتہ فرق اتنا ہے کہ محدثینبینۃ اور یمین غیر اجتہاد کے ساتھ خاص کرتے ہیں اور امام صاحب اموال میں خاص کرتے ہیں۔