جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
خاص اموال میں ہے۔ چنانچہ خاتم المحدثین جناب حافظ الحدیث مولانا مولوی احمد علی صاحب لکھتے ہیں: واحتجوا ای الحنفیہ بان الحاکم قضی بحجۃ شرعیۃ فیمالہ ولایۃ الانشاء فیہ فیجعل انشاء تحرزا عن الحرام والحدیث صریح فی المال ولیس النزاع فیہ فان القاضی لایملک دفع مال احد الی اخر ویملک انشاء العقود والفسوخ یعنی اور حجت لائے حنفیہ بایں طور کہ حاکم حکم کرتا ہے حجت شرعیہ سے اس چیز میں کہ اس کو ولایت انشاء کی اس میں ہے۔ پس گردانا جاوے گا حکم اس انشاء کا واسطے بچنے کے حرام سے اور یہ حدیث مال میں صریح ہے اور نہیں ہے گفتگو مال میں۔ اس واسطے کہ قاضی نہیں مالک ہوتا ایک کے مال دینے کا دوسرے کو اور مالک ہوتا ہے انشاء سے عقد نکاح وغیرہ و فسخ نکاح وغیرہ کا ۔انتہی اور امام طحاوی لکھتے ہیں: وذہب اخرون الی ان الحکم ان کان فی مال وکان الامر فی الباطن بخلاف ماسند الیہ الحاکم من الظاہر لم یکن ذلک موجبا لحلہ للمحکوم لہ وان کان فی نکاح او طلاق فانہ ینفذ ظاہرا و باطنا وحملوا حدیث الباب الذی قبل ہذا الباب علی ما ورد فیہ وہو المال یعنی اور گئے ہیں دوسرے فقہاء طرف اس کے کہ حکم اگر مال میں ہو اور واقع میں امر خلاف ہو اس لیے کہ حکم دیا ہے کہ حاکم نے ظاہر کو تو نہ ہو گا یہ حکم واجب کرنے والا اس کے حلال ہونے کا واسطے اس شخص کے کہ حکم کیا گیا ہے اس کے لیے۔ اور اگر ہو گا حکم نکاح میںیا طلاق میں تو تحقیق جاری ہو گا ظاہر اور باطن میں اور حمل کیا انہوں نے حدیث باب کو جو کہ پہلے اس باب کے ہے اوپر اس کے وارد ہوئی ہے اس میں یہ