جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے ہلال بن امیہ اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرایا پھر فرمایا اگر اس عورت کے ہاں اس طرح کا بچہ ہوا تو وہ ہلال بن امیہ کا ہے اور اگر دوسری شکل و صورت کا ہو تو شریک بن سمحاء کا ہو گا جس کے ساتھ ہلال بن امیہ کی بیوی کو متّہم کیا گیا تھا۔ پھر اس عورت کے ہاں ناپسندیدہ صفت پر بچہ پیدا ہوا تو نبیعلیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اگر ان کے درمیان لعان نہ ہو چکا ہوتا تو پھر میں اس عورت کو دیکھتا۔ مظاہر حق شرح مشکوٰۃ ج3 ص415 ہلال بن امیہ کا صدق اور اس کی بیوی کا کذب ظاہر ہو گیا۔ اس کے باوجود نبیعلیہ الصلوۃ والسلام نے اس تفریق کو باطل نہیں کیا جو لعان کی وجہ سے ہوئی تھی اور یہ اس کی دلیل ہے کہ حاکم جب کسی عقد کو فسخ کر دے تو وہ ظاہراً و باطناً نافذ ہو جاتی ہے۔ دلیل نمبر6: امام ابو حنیفہ کے قول پر اس سے بھی استدلال کیا جاتا ہے کہ جب حاکم کے پاس ایسے گواہ گواہی دیں جن کا ظاہر حال صدق ہو تو حاکم پر واجب ہے کہ ان کی گواہی کے اعتبار سے فیصلہ کرے۔ اور اگر اس نے گواہی کے بعد فیصلہ کرنے میں توقف کیا تو وہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کا تارک اور گنہگار ہو گا کیونکہ اس کو ظاہر کا مکلف کیا گیا ہے اور اس کو اس علم باطن کا مکلف نہیں کیا گیا جو اﷲ تعالیٰ کا غیب ہے۔ دلیل نمبر7: عن سعید بن جبیر قال قلت لابن عمر رجل قذف امراتہ فقال فرق نبی صلی اﷲ علیہ وسلم بین اخوی بنی العجلان وقال اﷲیعلم ان احدکما