جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
دلیل نمبر4: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعا لی عنہمانے ایک غلام کو عیب سے مبرا قرار دے کر فروخت کر دیا۔ خریدار اس غلام کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہکی عدالت میں لے گیا، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہنے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعا لی عنہماسے کہا کیا تم اﷲ کی قسم کھا کر یہ کہہ سکتے ہو کہ جب تم نے اس کو فروخت کیا تھا تو تم نے اس کی بیماری کو نہیں چھپایا تھا، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعا لی عنہمانے قسم کھانے سے انکار کیا، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہنے وہ غلام ان کو واپس کر دیا اور بعد میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعا لی عنہمانے وہ غلام زیادہ نفع کے ساتھ فروخت کر دیا۔ موطا امام مالک مترجم ص534 اس مسئلہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعا لی عنہمانے غلام کی بیع کو جائز قرار دیا حالانکہ ان کو علم تھا کہ باطن میں ایسا نہیں ہے اور باطن کا حکم ظاہر کے خلاف ہے (کیونکہ انہوں نے بری الذمہ ہو کر غلام کو فروخت کیا تھا اس وجہ سے باطن میں اس غلام کو واپس کرنا صحیح نہیں تھا) اگر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہکو بھی حضرت ابن عمر کی طرح اس بات کا علم ہوتا تو وہ بیع کو رد نہ کرتے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعا لی عنہماکا بھییہ مذہب تھا کہ اگر حاکم کسی عقد کو فسخ کر دے تو وہ بائع کی ملک میں آ جاتا ہے۔ اگرچہ باطن میں حقیقت اس کے برعکس ہو۔ دلیل نمبر5: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیکے قول کی صحت پر حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہماکییہ روایت بھی دلیل ہے کہ:.