جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
اسی طرح ایمان کی تعریف جب یہ کی گئی کہ تصدیق کا وہ درجہ جو یقین اور اذعان کی حد تک ہو اور اس میں ذرا برابر شک اور تردد نہ ہو تو جتنے مومن ہیں خواہ وہ انبیاء علیہم الصلاۃ والسلامہوں یا ملائکہ یا عام مومنین ہوں ان میں ایمان کییہی تعریف پائی جائے گی تو نفس ایمان میںیہ سب برابر ہیں، البتہ مراتب جدا جدا ہیں۔ اور اسی کی وضاحت ملا علی قاری نے فرمائی ہے کہ تصدیق اگر یقین و اذعان کی حد تک نہ ہو تو وہ ظن اور تردد کے درجہ میں ہوتی ہے اس کو ایمان نہیں کہا جا سکتا اس لیے نفس ایمان میں کمی اور زیادتی نہیں ہو سکتی۔ اس لحاظ سے کمی اور زیادتی کے الفاظ جو آتے ہیں ان سے مراد قوت اور ضعف ہے نفس ایمان میں برابر ہونے کے باوجود قوت اور ضعف میں سب برابر نہیں اسی لیے ہم یقینا جانتے ہیں کہ اَنَّ اِیْمَانَ اَحَادِ الْاُمَّۃِ لَیْسَ کَاِیْمَانِ النَّبِیِّعلیہ الصلوۃ والسلام وَلاَ کَاِیْمَانِ اَبِیْ بَکْرِ الصِّدِّیْقِ رضی اللہ تعالی عنہ بے شک امت میں سے کسی فرد کا ایمان جناب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکی طرح نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہکے ایمان کی طرح ہو سکتا ہے۔ شرح فقہ اکبر ص105 اگر طالب الرحمن صاحب اور ان کے طبقہ کو اس نظریہ سے اختلاف ہے تو بتائیں کہ کیا تصدیق جو اذعان و یقین کے درجہ کی نہ ہو بلکہ اس میں کچھ شک و تردد ہو تو کیا اس کو ایمان کہا جا سکتا ہے؟ اور مومنین کے ایمان میں جو مراتب بیان کیے جاتے ہیں کیایہ تصدیق کی کمی بیشی کی وجہ سے ہیں؟ کیا اعمال میں کمی بیشی کی وجہ سے مومنین پر احکام جاری کرنے کے لحاظ سے فرق کیا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب دینے سے پہلے اپنے