ان کو صحیح وحقا سمجھا جائے۔ مقتضیٰ تدین وتقویٰ کا تو یہ ہے کہ غرض نفسانی وہواپرستی کو چھوڑ کرنظر حق طلبی سے کتاب وسنت کو دیکھ کر عقاید واعمال میں ان کااتباع کیاجائے۔ ورنہ غلبہ ہوائے نفسانی سے حق ہرگز واضح نہیں ہوتا۔
باقی رہا مرزاقادیانی کا یہ کہنا کہ اگر کاذب ہوتا تو میں اب تک ہلاک کر دیا جاتا اوراس باب میں اس آیت سے استدلال کرتے ہیں:’’ولوتقول علینا بعض الاقاویل لاخذنامنہ بالیمین ثم لقطعنا منہ الوتین ،فمامنکم من احد عنہ حاجزین(المعارج :۴۴تا۴۷)‘‘ میں کہتا ہوں کہ اس آیت میں اگر مراد مطلق ’’تقول‘‘ ہے تو تمام کفار اپنے کفر وشرک میں متقول علی اﷲ ہیں۔
چنانچہ ظاہر ہے اورقرآن مجید میں بھی ان کو متقول علی اﷲ کہا گیا ہے:’’واذا افعلو افاحشۃ قالوا وجدنا علیھا اباء نا۰ واﷲ امرنا بھاقل ان اﷲ لایامربالفحشأ اتقولون علے اﷲ مالا تعملون (الاعراف:۲۸)‘‘ (وغیر ذلک ) حالانکہ بہتیرے ان کے ہلاک نہیں ہوتے ۔بلکہ ان کی شان میں جابجا اس قسم کی آیتیں فرمائی گئی ہیں :’’سنستدرجہم من حیث لایعلمون ،واملی لھم ان کیدی متین(الاعراف:۱۸۳،۱۸۲) قل من کان فی الضللۃ فلیمددلہ الرحمٰن(مریم:۷۵) ‘‘
پس یہ تویقینا ثابت ہوگیا کہ مطلق تقول مراد نہیں۔کوئی خاص تقول ہے۔ پھر یہ کہ وہ خاص کیا ہے۔ سو ظاہر ہے کہ جس دعویٰ کے باب میں یہ آیت آئی ہے۔ یعنی نبوت کے دعویٰ جو حضورﷺ نے کیا اورجس حالت میں یہ نازل ہوئی ہے۔ یعنی اس وقت شریعت کی تکمیل نہ ہوئی تھی اور اس لئے دلائل شرعیہ سے ایسے امور میں اتمام حجت نہ ہوسکتی تھی۔ ویسا ہی دعویٰ اوراسی حالت کی مراد ہے۔ پس حاصل آیت کا یہ ہوا کہ جو شخص ایسے وقت میں کہ اور ححج شرعیہ سے لوگوں کا التباس رفع نہ ہوسکے ۔نبوت کا دعویٰ کرے ۔ وہ بمقتضائے حکمت ورحمت خدا وندی کے خلق گمراہ نہ ہو ضرور ہلاک کیا جائے گا۔سو اگر اب کوئی شخص تقول کرے اول تو وہ نبوت کا دعویٰ اگر بالفرض کوئی ایسا بھی کرے جیسا کہ مرزاقادیانی نے ،توبوجہ تکمیل اصول وفروغ شرعیہ کے اس پر بھی احتجاج ہو سکتا ہے اورلوگوں کو بھی بوجہ وضوح دلائل شرعیہ کے التباس واشتباہ واقع نہیں ہوسکتا۔ پس ایسا ’’تقول ‘‘ مستلزم اہلاک نہیں ہے ۔ جب اہلاک لازم ہی نہیں تو اس کی نفی میں ’’تقول‘‘ کی نفی پر استدلال کرنا باطل ہے۔ پس یہ دلیل بھی گاؤخوردوباطل ہے۔ واﷲ یھدی من یشاء الی صراط مستقیم!