بھی ’’توفیتنی‘‘ کے لغوی معنی مراد ہے۔پورا لینا اورغرض اس سے آسمان پر اٹھالینا ہے اور جو کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ کی حدیث سے :’’قال العبدالصالح‘‘ صیغہ ماضی کے ساتھ آیا ہے۔تو جواب اس کا یہ ہے کہ ’’قال‘‘ کے ماضی ہونے سے استدلال کرنا محض ضعیف ہے۔ اول تواس لئے کہ ماضی بمعنی مضارع بکثرت قرآن پاک میں وارد ہے۔ :’’ونفخ فی الصور۔ واشرقت الارض۔وضع الکتاب۔ جی بالنبیین ۔قضی بینہم وغیرذلک ‘‘
پس قال بمعنی یقول یعنی مضارع کے معنی میں ہے۔چنانچہ شواہداس کے صحیح بخاری میں بھی موجود ہیں۔ رہا یہ امر کہ ماضی سے کیوں تعبیر فرمایا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آنحضرتﷺ نے جو اپنی حکایت بیان فرمائی کہ میں قیامت میں اس طرح کہوں گا ۔اس بیان سے پہلے صحابہؓ آیت سن چکے تھے:’’ان تعذبہم فانھم عبادک‘‘ پس مقتضی بلاغت کا ہوا کہ حکایت کے ماضی ہونے کا بمنزلہ محکی عنہ کے ماضی ہونے کے ٹھہراکر صیغہ ماضی استعمال فرمایا۔ یا یوں کہا جائے کہ قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ قول پہلے ہو چکے گا۔ پھر ہمارے حضور ﷺکا یہ قول صادر ہوگا توحضورؐ کے قول کے وقت چونکہ وہ قول ماضی ہوچکاہے اس لئے صیغہ ماضی سے تعبیر فرمایا ۔اگر آیت مذکور میں :’’توفیتنی‘‘ کے معنی موت کے لئے جائیں گے۔ تو بڑی غلطی وخرابی پڑ جائے گی۔جس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی موت کا عقیدہ نصاریٰ میں مسیح کے مصلوب ہونے کے بعد پیدا ہوا ہے۔اور یہ عقیدہ یہودسے نکلا ہے اورمرزاقادیانی کے زعم کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام واقعہ صلیب سے ۸۷سال کے بعد مرے ہیں۔ کیونکہ ۳۰ برس کی عمر میں ان کو نبوت اورکار تبلیغ رسالت عنایت ہوا۔ تین برس تک تبلیغ فرمائی تھی کہ واقعہ صلیب پیش آیا۔تو مرزائیوں کے عقیدہ کے موافق’’توفیتنی‘‘ کے معنی ہوں گے کہ جب کہ تو نے مجھے واقعہ صلیب سے مارڈالا تو تو ان پر نگہبان تھا۔ گویا حضرت مسیح علیہ السلام صلیب کے واقعہ سے مرے ہیں۔ ۸۷برس کے بعد نہیں مرے ہیں۔
حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کا عقیدہ ان آدمیوں میں پیدا ہواتھا۔ جو قبل واقعہ صلیب کے مسیح سے تعلیم حاصل کرتے تھے۔اگر یہ مان لیا جائے کہ مسیح علیہ السلام ملک شام سے نکل کرافغانستان اورپنجاب اورہندوستان اورشہر بنارس اور نیپال اورکشمیر میں آکر تبلیغ کرنے لگے تویہاں کے رہنے والوں میں توذرا بھی نصرانیت کے آثار زمانہ قدیم میں نہیں تھے اور نہ اب تک نصرانیت کے آثار کچھ زیادہ ہیں۔بلکہ ہندو مذہب کاغلبہ ہے اور نہ الوہیت کا عقیدہ رکھتے تھے۔ بلکہ بعد میں ہوئے تاکہ یہ سمجھ لیا جائے کہ مسیح کی موت کے بعد یہ لوگ الوہیت مسیح علیہ السلام کے