نہیں ہوئے ۔حالانکہ آیت :’’انی متوفیک‘‘ان کی تطہیر کے باب میں نازل ہوئی ہے اورتطہیر سوائے رفع جسمانی کے ممکن نہیں۔ مرزاقادیانی اپنی کتابوں میں یہ جو تحریر کرتے ہیں کہ مسیح صلیبی موت سے بچ کر اورصلیب کے زخموں سے شفاء پا کر ۸۷برس زندہ رہے اوراپنے وطن سے پوشیدہ طور پر نکل کر ملکوں کی سیر کرتے ہوئے نصیبین میں آئے اوروہاں سے افغانستان پہنچے اورایک مدت تک اس جگہ جو کوہ نعمان کہلاتا ہے اس کے قریب سکونت پذیر رہے۔ اس کے بعد پنجاب میں آئے اورہندوستان کا بھی سفر کیا اورغالباً بنارس اورنیپال میں بھی پہنچے۔پھر پنجاب کی طرف لوٹ کر کشمیر کا قصد کیا اور کوہ سلیمان پر ایک مدت تک عبادت کرتے رہے اور وہیں رہے۔
اقول: یہ باتیں کسی طرح نقل صریح اورشرع سے ثابت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت مسیح علیہ السلام کے معاملے میں عزیز وحکیم فرمایا ہے۔تو پھر کیاوجہ ہے کہ حضرت مسیح کو اتنی مصیبت اورتکلیف جھیلنی پڑی کہ بے چارے دار پرچڑھے۔ زخموں کی تکلیف اٹھائی اوروطن چھوڑنا پڑا ۔اس سے موت ہزار درجہ بہتر واولیٰ ہے اورچالیس دن تک جراحات کی تکلیف اٹھانا موت سے سخت تر ہے۔ کیونکہ جان تھوڑی سی دیر میں نکل جاتی ہے اوریہ عجیب ہے کہ مرزاقادیانی پوری پیروی نہ تو قرآن کی کرتے ہیں نہ اناجیل کی اورنہ احادیث کی۔ کچھ واقعات اناجیل سے ،کچھ قرآن سے اورکچھ احادیث سے لے کر اپنی رائے ومرضی کے موافق ایک فرضی سانچے میں ڈھال لیتے ہیں ۔ جو کچھ انہوں نے بیان کیا ہے نہ وہ تمام وکمال اناجیل سے ملتا ہے۔ نہ قرآن واحادیث سے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کچھ ادھر سے لیتے ہیں ۔کچھ ادھر سے اس طرح اپنی تاویلات کو پھیلاتے ہیں۔قرآن نے توحضرت مسیح علیہ السلام کے مقتول اورمصلوب ہونے کی نفی کی ہے۔ واقعہ صلیب کاقرآن سے ثبوت کب پہنچتا ہے۔ خداوند کریم اس آیت سے دو چیزوں کی نفی کرتا ہے۔ ایک حضرت مسیح علیہ السلام کے قتل ہونے کی۔ دوسرے ان کو مصلوب ہونے کی۔ قتل عام ہے جو ہر طرح کی موت کو شامل ہے۔
پس قتل نے ہر طرح کی موت کی نفی کی۔ چونکہ پھر بھی شک باقی تھا کہ مقتول نہ ہوئے ہوں۔ مصلوب ہوئے ہوں اوران کوصلیب پرچڑھانے کی سزا ملی ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی ان کی بریت ثابت کی:’’ماصلبوہ‘‘صاف پکار کر کہتا ہے کہ وہ صلیب کے صدمے سے ہر طرح امن میں رہے۔سولی دینے کے لئے مرنا شرط نہیں۔ پس مرزا کا یہ کہنا کہ ’’ما صلبوہ ‘‘سے سولی پرچڑھنے کی نفی نہیں ہوتی بلکہ مرنے کی نفی ہوتی ہے ۔یہ کہنا بالکل لغت کے خلاف ہے۔اگر ایسا ہوتا کہ دار چڑھاکر مرنے سے قبل اتار لئے جاتے اور’’ماصلبوہ ‘‘سے صرف اس بات کی نفی مقصود