رفع جسمانی قرار دیا جائے اور اگر فرض کر لیا جائے کہ :’’انی متوفیک‘‘ سے مراد موت ہی ہے تو یہ بھی رفع جسمانی کے مخالف نہیں۔ کیونکہ اس صورت میں ہم یہ کہیں گے کہ آیت میں تقدیم وتاخیر ہے اور بے شمار قرآن کی آیتیں ہیں جن میں معنی کی تقدیم وتاخیر الفاظ کے برخلاف ہے اورمخالفین کا کہنا کہ تقدیم وتاخیر کے ماننے میں قرآن کو غلط کرنا ہے۔اس لئے کہ خداموافق واقعہ کے بیان کرتا ہے۔ درست نہیں ۔دیکھو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یمریم اقنتی لربک واسجدی وارکعی‘‘ اس میںسجدہ کا ذکر پہلے ہے۔ حالانکہ پہلے رکوع مقصود ہے ۔تو معلوم ہوا کہ الفاظ کی تقدیم وتاخیر میں فصاحت وبلاغت کے خلاف نہیں۔ پس یہاں بھی رفع مقدمۃ المعنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اکثر جگہ الفاظ کی تقدیم وتاخیر کی ہے اورموافق واقعہ کے الفاظ کو بیان نہیں کیا ہے۔ چنانچہ سورئہ بقرہ میں ہے :’’وادخلوا الباب سجداوقولواحطۃ نغفرلکم‘‘یعنی دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو اور کہو گناہ اترے اور سورئہ اعراف میں ہے: ’’ وقولواحطۃ وادخلواالباب سجدا‘‘ پچھلی آیت کی ترتیب کے خلاف ہے اورواقعہ ایک ہی ہے۔
پس جب کہ ’’متوفیک‘‘ کے معنی ’’ممیتک‘‘ کے لیں گے تو اسی کی یہی توجیہ ہو سکتی ہے کہ الفاظ میں تقدیم وتاخیر ہے اوراب رفع کے بعد موت قرار دی جائے گی۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو واقعہ صلیب سے قبل جسد عنصری کے ساتھ آسمان پراٹھا لیا۔ پھر قرب قیامت میں ان کو زمین پر نازل کرکے مارے گا اورابن عباسؓ ’’نے متوفیک‘‘ کے معنی ممیتک لئے ہیں۔ مگر انہوں نے یہ تصریح نہیں کی کہ اول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو الہ نے مارا پھر رفع روحانی کی۔ حالانکہ ابونعیم کی روایت کتاب الفتن میں اوراسحاق ابن بشیر کی روایت درمنثور میں ہمارے مدعا کے مواقف ہے او ر فتح الباری اور قسطلانی شرح صحیح بخاری میں آیت :’’وان من اھل الکتاب الالیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ میں سند صحیح سے ابن عباسؓ سے ’ہ‘ضمیر قبل موتہ کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھرتی ہے اور اس کے خلاف پھیرنے کی تضعیف کی ہے ۔یعنی اہل کتاب حضرت مسیح علیہ السلام کے مرنے سے قبل ان پرایمان لائیں گے اوریہ ذکر اس وقت کے ایمان کا ہے جب کہ زمانہ آخر میں مسیح علیہ السلام دنیا میں نزول فرمائیں گے اورمرزائی یہ جو کہتے ہیں کہ ’’توفی‘‘ قرآن میں استقرا کے ساتھ قبض روح کے معنی میں ۲۳مواقع سے ثابت ہوتا ہے۔
پس بموجب اس استقرا کے موت کے معنی میں لینا چاہئے اور دوسرے معنی میںلینا