ہے کہ موت کی خبر دینے سے کسی کو تسلی حاصل نہیں ہو سکتی۔ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اگر کسی کے دوست کو اپنے دشمنوں کے ہاتھ سے ہلاک کا خوف ہو اوروہ شخص اپنے دوست سے کہے کہ تم مت گھبراؤ میں تم کو مار کر تمہاری روح کو اپنے پاس بلند کر لوں گا ۔تو ایسی بات کہنے سے اس کو کیسے تسلی ہو سکتی ہے۔ بلکہ پریشانی اوربھی بڑھ جائے گی۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ توفی کے معنی موت کے لے کر رفع کو روحانی قرار دینا بالکل سیاق کے مخالف ہے۔ کیونکہ آیت مذکور تسلی واطمینان کے لئے نازل ہوئی ہے۔ اس لئے مقتضائے مقام یہ ہے کہ اس رفع سے ایسا رفع مراد لیا جائے جو باقی ابنائے جنس میں عموماً نہ پایا جاتا ہو اوررفع روحانی تو تمام ابنیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اورشہداء اولیاء اﷲ میں پایا جاتا ہے۔ اس بناء پر ضرور ہے کہ تو فی کے معنی موت کے سوا کوئی دوسرے لئے جائیں اوررفع کو رفع جسمانی قرار دیا جائے تاکہ امتنان خدا وندی کے لئے وجہ معقول پیدا ہو جائے ۔الفاظ قرآن کی ترکیب سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں رفع سے رفع روحانی مراد نہیں ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یا عیسیٰ اس قول میں خطاب عیسیٰ علیہ السلام سے ہے اورعیسیٰ روح مع الجسد کا نام ہے نہ صرف روح کا۔ نا صرف جسد کا ۔بعد اس کے فرمایا ہے :’’انی متوفیک‘‘یہاں بھی کاف خطاب سے روح مع الجسد مراد ہے۔ بعد اس کے فرمایا :’’رافعک الیّٰ …‘‘ روح مع الجسد مراد ہے۔ ورنہ یوں فرماتا۔ رافع روحک الی اورک کے ساتھ مقید کیا ہے۔اس سے بھی رفع مع الجسد ہی سمجھا جاتا ہے اور جہاں رفع سے رفع روحانی مراد ہے ۔وہاں قرینہ پایا جاتا ہے ۔جیسے :’’یرفع اﷲ الذین امنوا منکم والذین اوتوالعلم درجات۔‘‘ اﷲ اونچا کرتا ہے ان کے درجے کو جو تم میں ایمان رکھتے ہیں اورجان کہ وہاں قرائن رفع روحانی کے خلاف موجود ہیں اوروہ یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف خطاب ہے نہ روح کی طرف۔
اسی طرح اکابر علماء کرام جیسے امام فخر الدین رازیؒ اورجلال الدین سیوطیؒ وغیرہ نے نہایت تحقیق سے لفظ ’’توفی ‘‘ کے معنی صاف کئے ہیں اوراس سے رفع جسمانی ثابت کیا ہے اوربعض مفسرین جیسے ابوالسعود اورخازن وغیرہ نے رفع روحانی کو نصاریٰ کے مزعومات سے بیان کیا ہے اور ابوالسعود نے کہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع بغیر موت اور نیند کے ثابت ہے اوریہی قول حسن اورزید کا ہے اورطبرانی نے بھی اس کو اختیار کیا ہے اور یہی ابن عباسؓ سے صحت کوپہنچا ہے اورکاف خطاب وغیرہ ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ یہی معنی مراد لئے جائیں اور یہی توفی کے معنی لغوی کے مناسب ہیں ۔ جو پورا لینے کے معنی میں آیا ہے اور پورا لینا ضرور اسی میں ہے کہ