عادت قدیم اورجدید بھی تھیں اور ہے کہ وہ ابتداء سے قصیدہ کو مرغوب اورخوش کن اورمیٹھے الفاظ اورمضامین دلربا سے مزین کرتے ہیں اورعلم بیان میں اس کو حسن مطلع کہا جاتا ہے۔ جس میں تغزل ہوتا ہے اورعشق وفراق کی دل فریب باتیں ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے مخاطب کو اس کی طرف رغبت ہوتی ہے اورہمہ تن گوش بن کر اس کے سننے کابغایت مشتاق ہوتا ہے۔عربی کے تمام مشہور قصیدے اسی طرز پر لکھے گئے ہیں۔ اہل عرب اس کوکمال عظیم شمار کرتے ہیں۔ عرب عربا سے لے کر مولدین کی قصاید ملاحظہ فرمائیں جس قدر اعلیٰ درجہ کے قصیدے ہیں۔ کوئی اس سے خالی نہیں ۔ مرزاقادیانی نے اس کا خیال ہی نہ کیا اورصدر قصیدے میں واقعہ کو الفاظ شینعہ سے لکھ مارا ۔جس سے فطرت سلیمہ نفرت کرتی ہے۔ مثلاًمرزاقادیانی نے اپنے قصیدہ کو ان الفاظ سے شروع کیا: ’’دفا مدمروار داک خلیل واغراکموغر‘‘ (اعجاز احمدی ص۳۹،خزائن ج۱۹ص۱۵۰)
جس کے معنے ہوئے زخمی کو مارا ۔ہلاک شدہ ہلاک کیا۔ برانگیختہ کیا۔ غصہ دلانے والا۔ ناظرین دیکھئے اورغور فرمائیے کہ جب قصیدے کے اول شعرمیں چھ الفاظ شینعہ موجود ہیں تو حسن مطلع کا کیا ذکر اوراسی پر مرزاقادیانی کی بدزبانی کو تمام قصیدہ میں قیاس کیجئے:
قیاس کن ز گلستان اوبہار اورا۔ اورصدر قصیدہ میں اس قسم کے الفاظ معیوب شمار کئے جاتے ہیں۔ کما بین فے موضعہ
بخلاف اس کے بحمداﷲ ہمارا قصیدہ نہایت دلچسپ اور تغزل پر مبنی ہے۔ جن حضرات کو ادب کا مذاق اور اشعار عربیہ کا ذوق سلیم ہے ۔ وہ اس کے دلفریب مضامین کی داد دیتے ہوئے ہمارے قصیدہ کو مرزاقادیانی کے مصنوعی معجزہ پر فوقیت دیں گے۔ ناظرین ترجمہ کی طرف بھی توجہ مبذول رہے۔ مرزاقادیانی نے اپنے قصیدہ کا ترجمہ لفظی کیا ہے اور ہمارے قصیدہ کا مطلب سلیس اردو میں ہے۔ اب میں دونوں قصیدوں کو معہ ترجمہ کے پیش کرتا ہو۔
مرزاقادیانی کے اشعار
مولوی صاحب کے اشعار
(۱) ایاارض مدقددفاک مدمر
وارداک ضلیل واغراک موغر
زمین ایک ہلاک شدہ نے تیری خستگی کی حالت میں تجھے ہلاک کیا اورسخت گمراہ کرنے والے نے تجھے مارا اور ایک غصہ دلانے والے نے تجھے برانگیختہ کیا۔ (اعجاز احمدی ص۳۹، خزائن ج۱۹ ص۱۵۰)
الاھل رسول من سعاد یبشر
بانجاز وعدکا دبالیاس ینذر
کیا محبوبہ کا کوئی ایسا قاصد ہے جو اس کی وعدہ کی مسرت بخش خبر دے ۔جس کی ناکامی کا خوف ڈراتا ہے