ناظرین! غور فرمائیں کہ جب کافروں کو مہلت ملی تو جھوٹے اگر جھوٹ بول کر کچھ دن زندہ رہیں تو کیاتعجب ہے۔
۱… ۶۹۲ فان اک کذابا فکذبی یلبیدی نی وان اک من ربی فمالک تھجر
(اعجاز احمدی ص۶۶، خزائن ج۱۹ص۱۷۸)
ترجمہ مرزاقادیانی:’’اوراگر میں جھوٹا ہوں تو میرا جھوٹ مجھے ہلاک کرے گا اور اگر میں خدا کی طرف سے ہوں پس کیوں تو بے ہودہ گوئی کرتا ہے۔‘‘
کس کو جھوٹ ہلاک کرتا ہے۔ یہ مرزاقادیانی نے لوگوں کی چشم بصیرت پر خاک ڈالنا چاہا ہے۔ اگر جھوٹے ہلاک ہوا کرتے توآج دنیا میں جھوٹ کا وجود نہ ہوتا۔ یہ مرزاقادیانی تو طبعی عمر کو بھی نہیں پہنچے تھے۔ جو مرے بہت جھوٹے دنیا میں موجود ہیں اورہوئے جو اپنی پوری عمر گزار کر یہاں سے رخصت ہوئے۔ناظرین یہ ہے جدیدنبی کا سیاہ جھوٹ۔
۳… ۲۹۸ تھام قتالی واجتنب ماصنعتہ وانااذااجلنا فانک مدبر
(اعجاز احمدی ص۶۶،خزائن ج۱۹ص۱۷۸)
ترجمہ مرزاقادیانی:’’میری جنگ سے توپرہیز کر اوراپنے بدکاموں سے الگ ہوجا اورجب ہم میدان میں آئے تو بھا گ جائے گا۔‘‘
ناظرین! مرزاقادیانی مناظرہ میں ہمیشہ بھاگتے رہے۔ لاہو رمیں جب پیر مہر علی شاہ (جن کا ذکر اوپر ہوا ہے) نے مرزاقادیانی کو دعوت مناظرہ دیا اورفریقین نے تاریخ وغیرہ مقرر کی۔ جب تاریخ مقررہ پر شاہ صاحب لاہور پہنچے تو مرزاقادیانی ندارد، تارد یاگیا۔ مرزاقادیانی کے مریدین نے منت سماجت کی لیکن مرزاقادیانی ایسی چپکی لگائی کہ ’’بایدوشاید۔‘‘ ملاحظہ ہو اخبار النجم مورخہ ۳۱؍رمضان ۱۳۱۳ ھ اورایسا ایک ہی مرتبہ نہیں ہوا۔مولوی ثناء اللہ صاحب بھی حسب وعدہ مرزاقادیانی قادیان تشریف لے گئے۔ مرزاقادیانی کو بلایا گیا مگر یہ کب آنے والے تھے۔ حیلہ و حوالہ کر کے نکل گئے اور اپنی چار دیواری سے باہر تشریف نہ لائے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے۔ (الہامات مرزاص۱۲۳تا۱۲۹)
یہ ہیں مرزاقادیانی کے فرار اور بدبو دار جھوٹ تعجب تو اس جرأت پر ہوتا ہے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب اور مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی ہی میں مرزاقادیانی جھوٹ کی اشاعت کرکے چلتے ہوئے ۔ سچ ہے ’’دروغ گوید بروئے ایشان۔‘‘اورمرزاقادیانی نے بقول خود اپنی موت سے ثابت کر دیا کہ جھوٹے سچے کی زندگی میں اس طرح مرتے ہیں۔